پارلیمانی جمہوریت یا صدارتی نظام

کیا پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام ناکام  ہو چکا ہے‘ کیا وہ وطن عزیز کے باسیوں کی سیاسی بصیرت‘ادراک اور فہم سے میل نہیں کھاتا اور ان کی سمجھ بوجھ سے کوئی بالاتر چیز ہے جیسا کہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا موقف تھا کہ  parliamentary democracy doesn't suit the genius of Pakistanis ایوب خان نے یہ الفاظ اس وقت استعمال کئے تھے کہ جب 1951 ء اور 1958ء کے دوران  یعنی سات برس کے قلیل عرصے میں پاکستان نے چھ وزرائے اعظم بدلے‘ایوب خان اور پھر یحییٰ خان کے مارشل لاء کے ادوار کے بعد 1970 ء سے لے کر 1977ء تک وطن عزیز پارلیمانی جمہوری نظام سے ہم کنار ہوا‘ اس کے بعد 1979 سے  لے کر 1988 ء تک  پاکستان ایک مرتبہ بھر ایک لمبے عرصے تک مارشل لاء کے تحت چلتا رہا اس کے بعد کے عرصے میں  تادم تحریر کبھی وطن عزیز میں پارلیمانی جمہوریت رہی تو کبھی فوجی حکومت اگر آپ قیام پاکستان یعنی 1947 ء سے  لے کر 2023 ء کے عرصے پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو بحثیت مجموعی یعنی ان 76برسوں کے پیریڈ  میں  تقریباًآدھے عرصے تک اس ملک میں پارلیمانی جمہوریت کا نظام رائج تھا 1947ء سے 1958 ء پھر1970 ء سے 1977 ء پھر1990 ء سے 1999ء اور  اس کے بعد تا دم تحریر پاکستان میں جو نظام نافذ تھا وہ اگر پارلیمانی جمہوری نظام نہ تھا تو پھر کیا تھا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سیاست دانوں کو قدرت نے وافر مواقع فراہم کئے کہ وہ اگر چاہتے تو صحیح معنوں میں  پاکستان  کے اندر انگلستان میں رائج نظام کی طرز کا پارلیمانی نظام  نافذ کر سکتے تھے کہ جس کو پارلیمانی نظام کی ماں قرار دیا جاتا ہے‘ پر انہوں نے زبانی جمع خرچ کے سواپاکستان میں پارلیمانی نظام کی روایات کو پنپنے نہ دیا اور اسی وجہ سے وطن عزیز کے مختلف کونوں سے آج یہ آواز بھی سنائی دے رہی ہے کہ کیوں نہ ہم اس طرز کا نظام اپنے ہاں رائج کریں کہ جو چین میں نافذ ہے‘ اس پارلیمانی نظام کو ہم کیاکریں  کہ جس میں ایک عام آدمی کو دو وقت کی با عزت روٹی نہ مل سکے‘ اب تو وطن عزیز کے کئی سیاسی حلقوں میں یہ سوچ بھی جنم لے رہی ہے کہ کیوں نا ملک میں متناسب آبادی کی بنیاد  پر  وہ proportional representation والا الیکٹورل سسٹم رائج کر دیا جائے کہ جو ناروے سویڈن یا ڈنمارک میں نافذ ہے تا کہ اسمبلیوں میں مختلف طبقوں کی آبادی کے مطابق اسمبلیوں میں  ان کی نشتیں ہوں اورصرف  ان طبقوں سے حقیقی طور پر  تعلق رکھنے والے ہی ان نشستوں پر الیکشن لڑ سکیں‘ اس معاملے میں پبلک فورمز پر بحث و مباحث ضروری تھی جو شاید اب اس مرحلے پر ممکن نہ ہو سکے کہ نئے الیکشن کے لئے اب وقت بہت کم رہ گیا ہے‘پر جلد یا بدیر اب ہمیں ملک میں انتخابی اصلاحات کی طرف جانا ہوگا ان ابتدائی کلمات کے بعد اب دیگر اہم عالمی حالات حاضرہ پر ایک تنقیدی نظر ڈالتے ہیں‘ یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان امسال 3  ارب ڈالرز کا چاول برآمد کرے گا اس کا ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر مثبت اثر پڑے گا  ملک کے مختلف شہروں سے پاکستان میں غیر قانونی طور پر قیام پذیر افغانیوں کے خلاف کاروائی کی خبریں آ رہی ہیں‘ پر اس کا اگر کوئی مستقل اور پائیدار حل ہے تو وہ یہ ہے کہ جس طرح برطانیہ یا امریکہ نے اپنے ہاں غیر ملکیوں کی آمد پر سخت پابندیاں لگا رکھی ہیں بالکل اسی طرح ہمیں بھی وطن عزیز میں افغانیوں کے داخلے اور پھر ویزا ختم ہونے پر ان کی اپنے وطن واپسی کو یقینی بنانے کیلئے ایک قابل عمل فول پروف میکنزم تشکیل دینا ہو گا۔ آئے دن ہمارے ملک کے  اخبارات  میں منشیات کے استعمال کے عادی افراد کی تعداد میں اضافے کی خبریں کثرت سے شائع ہو رہی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری نئی نسل میں منشیات کے استعمال کا زہر تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس علت پر کنٹرول کی ذمہ داری صرف حکومت پر ہی نہیں ڈالی جا سکتی‘والدین کو بھی اس ضمن میں اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھنے کی سخت ضرورت ہے۔