ایک ترقی پسندانہ اقدام

دنیا کے کئی ممالک میں اعلیٰ عدالتوں یعنی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس  کی عدالتی کاروائی ٹیلی ویژن پر لائیو یعنی براہ راست دکھائی جاتی ہے اس لئے اگر سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اب اپنی جوڈیشل کاروائی کو براہ راست ٹیلی ویژن پر دکھانے کی اجازت دے  دی ہے تو اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں ہے یہ ایک ترقی پسندانہ اقدام ہے  عدلیہ بھی مقننہ کی طرح ایک اہم  قومی ادارہ ہے اگر مقننہ  کے اجلاسوں کی کاروائی ٹیلی ویژن پر لائیو دکھائی جا سکتی ہے تو عدلیہ کی کاروائی کو کیوں لائیو نہیں دکھایا جا سکتا یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا بلکہ اگر  اسی دن  ہی ہو جاتا کہ جس دن مقننہ کے اجلاسوں کی لائیو کوریج پاکستان ٹیلی ویژن نے شروع کر دی تھی تو بہت  ہی اچھاہوتا‘ پر چلو دیر آید درست آید‘اس جملہ معترضہ  کے بعد اور ذیل کی سطور میں درج چند اہم قومی اور عالمی امور پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے پیشتر ہم اپنے قارئین کی خدمت میں  ایک پرانے گرو کی ایک نصحیت  پیش کرتے ہیں ماضی بعید کی بات ہے کہ جب ایک چیلے نے اپنے گرو سے پوچھا کہ وہ اسے ایسا نسخہ بتائیں کہ جس پر عمل پیرا ہو کر اس کی زندگی لمبی ہو جائے گرو جی نے اس چیلے کو یہ جواب دیا   تم آج کل جتنا کھار ہے ہو اسے آدھا کر دو یعنی اگر روزانہ دو روٹیاں کھا رہے ہو تو اسے گھٹا کر ایک کر دو‘ جتنا پانی پی رہے ہو اسے ڈبل کر دو‘یعنی روزانہ اگر ایک گلاس پانی پیتے ہو تو اسے بڑھا کر دو گلاس کر دو اور جس قدر روزانہ واک کر رہے ہو اسے دو گنا کر دو یعنی اگر روزانہ ایک میل پیدل چلتے ہو تو اب دو میل روزانہ پیدل  چلا کرو‘ ایسا کرنے سے  تمہاری عمر زیادہ ہو جائے گی اس گرو نے یہ نصحیت اپنے چیلے کو ایک ہزار سال پہلے کی تھی آج کا ڈاکٹر بھی اسی قسم کی نصیحت اپنے مریضوں کو کر رہا ہے اس ضمن میں چین کی حکومت اور قوم بڑی عقلمند ثابت ہوئی ہے چین میں سائیکلنگ کا رواج عام  ہے جو ایک بہترین ورزش قرار دی گئی ہے‘ آج کل کا ڈاکٹر بلڈ پریشر اور  شوگر میں مبتلا افراد کو سائیکل چلانے کا مشورہ دیتے ہیں‘ چینیوں نے ایک عرصہ دراز سے اپنے ملک میں سڑکیں اس طرز کی بنا رکھی ہیں کہ دونوں جانب ان میں ایک لین lane سائیکل چلانے والوں کیلئے مختص کر دی ہے تاکہ سائیکلسٹ بغیر کسی خوف و خطر سے سائیکل چلا سکیں چنانچہ بیجنگ کی آدھی آبادی روزانہ اپنے معمولات زندگی نبھانے اپنے دفاتر آنے جانے  اور دیگر کاروبار زندگی کرنے کے واسطے سائیکل استعمال کرتی ہے‘آپ نے شاذ ہی کوئی ایسا چینی دیکھا ہو گا کہ جس کی توند نکلی ہو یا وہ موٹاپے کا شکار ہو۔ کسی کی  بھی سمجھ میں یہ بات بالکل نہیں آ رہی کہ حکومت 20 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو ملک سے باہر کیسے نکالے گی جو 1979 ء میں افغان جنگ کے بعد پاکستان آئے  اور 1989 ء میں جنگ ختم ہونے کے باوجود وطن عزیز میں مقیم ہیں پاکستانیوں سے ان کی بد سلوکی کی وجہ سے اب مقامی لوگوں میں ان کے خلاف نفرت کے جذبات ابھر رہے ہیں جو ملک کے امن عامہ کے واسطے  نیکشگون نہیں ہے‘ اسی طرح اور کئی ایسے مسائل ہیں کہ جن پر ارباب اقتدار کو افغانستان کے ارباب بست و کشاد کے ساتھ سنجیدگی سے گفت و شنید کا سلسلہ فوری طور پر شروع کرنے کی ضرورت ہے‘ اس تناظر میں مولانا فضل الرحمان صاحب کی تجویز بڑی دانشمندانہ ہے کہ ان مسائل کے حل کیلئے پاک افغان مشترکہ کمیشن تشکیل دیا جائے‘ سینیٹر رضا ربانی کی یہ اچھی تجویز ہے کہ حکومت اشرافیہ پر ٹیکس لگا کر غریبوں کو ریلیف دے‘ جب تک حصہ بقدر جثہ کے فارمولے پر انکم اور ویلتھ ٹیکس نہیں لگایا جائے گا حکومت کے پاس اتنا سرمایہ جمع ہو ہی نہیں سکے گا کہ وہ اس ملک کے عام آدمی کی بنیادی ضروریات زندگی پوری کر سکے ملک میں چوری چکاری راہزنی لوٹ مار کے واقعات میں زیادتی کی اور بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں‘پر بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کی اکثریت بھوک‘ بیماری‘افلاس اور بے روزگاری کا شکار ہے۔تنگ آمد بجنگ آمد وہ دو وقت کی روٹی کھانے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے لوگوں کی جیب پر ڈاکے ڈالنے پر مجبور ہے‘حکومت کو ملک چلانے کیلئے اشرافیہ اور مالدار طبقوں پر ٹیکس لگا کر کاروبار حکومت چلانا پڑتا ہے‘ اشرافیہ سے اگر ان کی آمدن کے مطابق  ٹیکس وصول نہیں کیا جائیگا تو عوام مجبورہوکر احتجاج کیلئے کسی بھی وقت سڑکوں پر آسکتے ہیں۔