مہیا وسائل کا استعمال؟

وطن عزیز کا سیاسی منظرنامہ طویل عرصے سے تناؤ اور کشمکش کا شکار چلا آرہاہے‘ معیشت سمیت دیگر متعدد شعبوں میں ملک کو سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے خیبرپختونخوا کا کیس امن وامان اور بعض دیگر حوالوں سے مختلف بھی ہے‘ اس مجموعی صورتحال میں مرکز اور صوبوں میں حکومتیں عوام کو ریلیف دینے کیساتھ تعمیر و ترقی کے بڑے بڑے منصوبوں کے اعلانات کرتی چلی آرہی ہیں اس سب کے باوجود عام شہری کو درپیش مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے‘ اس سب کی وجہ چیک اینڈ بیلنس کیلئے فعال نظام کا نہ ہونا ہے خدمات کا ذمہ دار ہر دفتر اضافی وسائل اور مین پاور کیلئے سرکاری خط و کتابت میں ہی مصروف رہتا ہے جبکہ موجودہ حالات میں اضافی فنڈز کا اجراء کسی صورت آسان نہیں ہوتا بہتر طرز حکمرانی کا تقاضہ ہے کہ پہلے مرحلے میں ہر ادارہ مہیا وسائل اور افرادی قوت کا بہتر استعمال یقینی بنائے صوبے کی سطح پر خیبرپختونخوا حکومت نے متعدد شعبوں میں اصلاحات کا کام جاری رکھا ہوا ہے گزشتہ ایک دہائی سے زائد کے عرصے  میں عوام کو بنیادی شہری سہولیات کی فراہمی کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے دور میں بلدیاتی اداروں کے اختیارات اور ذمہ داریوں کیلئے ہوم ورک ہوا اس سب کیساتھ صفائی کا نظام بہتر بنانے کیلئے ادارہ جاتی اصلاحات بھی جاری ہیں جبکہ برسرزمین صورتحال یہ ہے کہ صوبے میں آبادی کے ایک بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں صفائی کی صورتحال ارضی حقیقت ہے جسے ناگفتہ بہ قرار دیا جاتا ہے سیوریج کا نظام اپنی جگہ پریشان کن صورت اختیار کئے ہوئے ہے صوبے میں جن شعبوں کو ترجیحات میں سرفہرست رکھا گیا ان میں ہیلتھ سیکٹر بھی شامل ہے اس حقیقت سے صرف نظر ممکن نہیں کہ  اس شعبے میں اصلاحات کیلئے بھاری فنڈز بھی مختص ہوئے اور صحت کارڈ جیسا منصوبہ بھی دیا گیا اس کے باوجود عوام کی بڑی تعداد آج بھی بھاری ادائیگی کرکے نجی اداروں میں علاج کیلئے جانے پر مجبور ہی ہے ٹریفک نظام کی بہتری کیلئے درجنوں منصوبے بنے اور اب بھی بہت سارے پراجیکٹس کا عندیہ دیا جارہا ہے تاہم عملی نتائج بے ثمر ہی ہیں ایجوکیشن ریونیو اور دوسرے اداروں میں بھی اصلاحات کے باوجود عوام کو ریلیف کا نہ ملنا متقاضی ہے کہ چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو موثر بنایا جائے تاکہ ثمرآور نتائج کا حصول ممکن ہو سکے۔