بیٹیوں کو قحبہ خانہ کی زینت بنانیوالی خاتون کی کہانی

دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ہمارے مذہب میں رشتوںکے تقدس کے بارے میں واضح احکامات ہیں‘ خواتین کےلئے پردے کاحکم ہے اورمذہب میں محرم اورنامحرم کافرق واضح کیاگیاہے تاکہ خواتین کاتقدس اوراحترام برقراررہے ‘ ہمارے معاشرے کے بگاڑمیں مغربی اورہمسایہ ملک کی ثقافت کا بڑا ہاتھ ہے ‘ جس کے باعث ہم اسلام سے دورہوتے جارہے ہیں جبکہ رہی سہی کسرموبائل فونزاورانٹرنیٹ نے پوری کردی ہے نوجوان لڑکے اورلڑکیوں کے ہاتھوں میں پہلے کتاب ہوتی تھی ‘اب ان کے ہاتھوں میں موبائل فون آگئے ہیں ‘اسی بناءمردوں اورلڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں اورخواتین بھی بے راہ روی کاشکار ہیں ضرورت اس امرکی ہے کہ اسلامی احکامات پرعملدرآمد کیاجائے‘ پانچ وقت کی نمازادا کی جائے اورقرآن پاک کوترجمہ سمیت پڑھاجائے جودنیااورآخرت کے لئے ہماراحقیقی راستہ ہے ‘اسلام سے دوری کاایساہی ایک واقعہ پشاورکے نواحی علاقہ میں پیش آیاجہاں والدہ ہی اپنی سگی بیٹیوں کو بے راہ روی کی طرف لے گئی اوراس کاانجام یہ ہواکہ حالات سے تنگ آنے والی بیٹی انصاف کے لئے مقامی تھانے پہنچ گئی ۔یہ29ستمبر2018ءکی بات ہے جب ابتدائی طورپرمسماة ب نے تھانہ پہاڑی پورہ میں مدرپورٹ درج کراتے ہوئے بتایا کہ اس کی بیٹی مسماة ک اورحقیقی بیٹے فضل دیان کے باہمی تعلقات کے باعث مسماة ک کاپاﺅں بھاری ہو گیا ہے جس پرپولیس مدعیہ کے گھر پہنچی جہاں 15سالہ مسماة ک موجودتھی اوراس نے اپنی والدہ پرالزام عائد کیاکہ اس کی والدہ گزشتہ پانچ سال سے اس سے جسم فروشی کروارہی ہے اورمختلف مقامات پرمختلف مردوں کے پاس لے کرگئی ہے مدعیہ نے یہ بھی بتایا کہ اس کابھائی اورماموںبھی اس کوکئی مرتبہ اس کی مرضی کے بغیر اپنی ہوس کانشانہ بناچکے ہیں اوراس کی حقیقی بہن نورالضیاءکے ساتھ بھی زیادتی کرچکے ہیں‘جس پرمراسلہ کو ایف آئی آرکی شکل میں مرتب کیاگیا۔مقدمے کی تفتیش مکمل ہونے پرمقدمے کاچالان عدالت بھجوایاگیا اورملزموں کو عدالت میں پیش کرنے کے لئے سمن جاری کیاگیا‘عدالت میں پیش ہونے پرملزموں کے خلاف ضابطہ فوجداری کی دفعہ265سی کے تحت20مارچ2019ءکو فردجرم عائد کی گئی تاہم ملزموں نے صحت جرم سے انکارکیا‘جس پراستغاثہ کے گواہوں کوسمن جاری کرکے عدالت طلب کیاگیا ابتدائی طورپرمتاثرہ لڑکی کوعدالت نے والدکی درخواست پر دارالامان سے نکال کروالد کے حوالے کیااوراس حوالے سے ڈی ایف سی شکیب نے اپنابیان قلمبند کیا اور4جولائی2019ءکو مذکورہ کیس چائلڈپروٹیکشن کورٹ کی جج ودیہ مشتاق کو سماعت کے لئے منتقل کیاگیا‘16جولائی2019ءکو ایک مرتبہ پھرملزموں پرفردجرم عائد کی گئی تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکارکیاجس پراستغاثہ کواپنے گواہان عدالت میں لانے کی ہدایت کی گئی‘اسسٹنٹ سب انسپکٹراقبال شاہ نے بطوراستغاثہ کے گواہ نمبر1کی حیثیت سے عدالت میں پیش ہوکربتایا کہ وہ29ستمبر2018ءکوپولیس چوکی پخہ غلام میں موجودتھاکہ مسماة بیگم آئی جس نے نقل مدکی شکل میں مدرپورٹ درج کی اوروہ دیگرپولیس نفری کے ہمراہ مدعیہ کے گھرپہنچاجہاں مسماة ک نے اپنی بہن مسماة نورالضیاءکی موجودگی ۔

میں تمام رپورٹ کو مراسلہ کی شکل دی اورمراسلہ مرتب ہونے کے بعد مدعیہ کوپڑھ کرسنایاگیا‘جس پرمسماة نورالضیاءنے اس کی تصدیق کرتے ہوئے انگوٹھاثبت کیااس نے مراسلہ تھانے بھجوایاتاکہ اس کے مطابق ایف آئی آرکااندراج ہوسکے اوراس نے ملزموں کی گرفتاری عمل میں لائی ‘ گرفتاری کے کارڈ جاری کئے اورمدعیہ اوراس کی بہن کو دارالامان بھجوانے کےلئے مجسٹریٹ کو درخواست دی‘ایس ایچ او عبداللہ جلال نے تفتیش مکمل ہونے پرچالان عدالت میں پیش کیا‘سب انسپکٹرخالدرحمان جوکہ مقدمے کاتفتیشی افسرتھا‘نے مقدمے کی تفتیش کی‘جائے وقوعہ کانقشہ ¾ ملزموں کے ریمانڈ کی درخواست ¾ نشاندہی کی دستاویزات ¾ ملزموں کااقبالی بیان قلمبند کرنے کی درخواست کی ¾ مدعیہ اوراس کی بہن کے میڈیکل چیک اپ کرانے کی درخواستیں ¾ مدعیہ کو دارالامان منتقل کرنے ‘ملزموں اورساتھ ہی مدعیہ کے ڈی این اے کرانے کی درخواست بھی ریکارڈ پرلگائی‘مدعیہ مسماة ک نے اپنے بیان میں نامزدملزموں پر دعویداری کی‘سب انسپکٹرعبداللہ جان نے ایف آئی آرکے اندراج کے حوالے سے بیان دیا‘ڈاکٹرانیلاشاہ بخاری نے اپنے عدالتی بیان میں عدالت کوبتایاکہ اس نے مدعیہ مسماة ک اوراس کی بہن مسماة نورالضیاءکابھی میڈیکل کیااوراس حوالے سے دونوں رپورٹس پیش کیں‘ڈاکٹرمیاں سعداحمد نے ملزم مزمل اورفضل دیان کامیڈیکل کیااوراس حوالے سے رپورٹس پیش کیں‘استغاثہ کے گواہوں کے بیانات مکمل ہونے پرملزموں کو ایک مرتبہ پھرعدالت طلب کیاگیاجہاں ان کے بیانات قلمبند کئے گئے تاہم ملزموں نے خودکوبے قصورقراردیا‘ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹرنے اپنے دلائل میں عدالت کوبتایاکہ عام زیادتی کے مقدمے اورمذکورہ مقدمے میں بہت فرق ہے کیونکہ کوئی بھی اپنے خونی رشتوں پراس طرح کاالزام نہیں لگاسکتاکیونکہ مدعیہ نے مذکورہ کیس میں اپنی سگی ماں ¾ ماموں اوربھائیوں پردعویداری کی ہے اورمتاثرہ لڑکی نے اکیلے میں جوبیان دیاہے وہی ملزموں کے خلاف بطورثبوت کافی ہے ‘کیونکہ میڈیکل رپورٹ اوردیگرشہادتیں ملزموں کے خلاف ہیں اورمقدمے کے تانے بانے سارے ملزموں سے ملتے ہیں کہ انہوں نے یہ سنگین نوعیت کاجرم کیاہے ‘انہوں نے اپنے دلائل میں عدالت کو مزید بتایاکہ فوجداری مقدمات میں گواہوں کے رش کی بجائے گواہوں کے بیانات کے معیارکودیکھاجاتاہے اورحالات اورواقعاتی شہادتوں کے نتیجے میں یہ ثابت ہوتاہے کہ ملزموں نے جرم کیاہے اس بناءانہیں قرارواقعی سزادی جائے انہوں نے اس موقع پر سپریم کورٹ کے بیشترمقدمات کے حوالے بھی پیش کئے۔دوسری جانب ملزموں کے وکیل نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ استغاثہ ملزموں پر جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے اورملزموں کے خلاف کوئی بھی شہادت ثابت نہیں ہوئی اورریکارڈ سے ظاہرہے کہ ملزم پولیس کی تحویل میں رہے‘ اس کے باوجود انہوں نے جرم کااعتراف نہیں کیااورنہ ہی ملزموں کے قبضے سے کوئی برآمدگی ہوئی ہے اورمیڈیکل رپورٹ بھی اس بات کی تصدیق کرتاہے کہ حالیہ دنوں میں متاثرین کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوئی ‘۔

 ملزموں کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کے ڈی این اے ٹیسٹ استغاثہ خودریکارڈ پرنہیں لایاجس سے پتہ چلتاہے کہ متاثرہ بچی سے مماثلت نہیں رکھتے اورواقعاتی شہادتوں کی بنیادپرملزموں کوسزانہیں دی جاسکتی اورمتاثرہ بچی کی بہن نورالضیاءنے خودمراسلہ کی تصدیق کی ہے تاہم استغاثہ نے اسے عدالت میں بیان کے لئے پیش نہیں کیاجس سے ملزموں کی بے گناہی ثابت ہوتی ہے کیونکہ قانون شہادت کے مطابق ایسے گواہ کی عدالت میں پیشی بہت ضروری ہے وکیل صفائی نے عدالت سے استدعاکی کہ ملزمان بے گناہ ہیں اس بناءانہیں مقدمے سے بری الذمہ قراردیا جائے۔عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں قراردیاہے کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق مسماة ک کنواری نہیں ہے تاہم حالیہ دنوں میں اس کے ساتھ کوئی مباشرت نہیں ہوئی‘جبکہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق اس کی بہن نورالضیاءبھی کنواری نہیں ہے ‘عدالت نے اپنے فیصلے میں تحریرکیا کہ ریکارڈ سے ثابت ہوتاہے کہ ملزمہ مسماة بیگم اپنی بیٹی ک کوپانچ سال قبل نامعلوم مقام پربدفعلی کے لئے لے گئی تھی جہاں سے مسماة ک نے فرارہونے کی کوشش بھی کی اوراس کے جسم پرخراشیں بھی آئیں جبکہ بعدازاں دومرتبہ وہ کسی دوسرے مقام پربھی لے کرگئیں اسی طرح مسماة ک نے اپنے بیان میں کہا کہ ایک رات وہ اپنی والدہ کے ساتھ سورہی تھی کہ اس دوران اس کی والدہ کمرے سے باہرگئی اورکچھ دیربعداس کاماموں آیاجس نے اس کو اس کی مرضی کے بغیرتشددکا نشانہ بنایااورجب صبح اس نے یہ بات اپنی والدہ اورممانی کوبتائی توانہوں نے جواب دیاکہ کوئی بات نہیں یہ تو تمہارے ماموں ہیں جبکہ ک نے اپنے بیان میں یہ بھی بتایاکہ ایک روزجب وہ مدرسے سے واپس آئی تووالدہ کے پاس چارپائی پر لیٹ گئی جہاں اس کابھائی فضل دیان کمبل میں سورہاتھااوراس دوران فضل دیان نے اس کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی‘ عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیاکہ مسماة ک نے اپنے بیان میں کہاہے کہ والدہ اس اکیلی کوہی مختلف جگہوں پرلے کرگئی اوراس کے ہمراہ اس کی بہن نہیں ہوتی تھی جبکہ اس کے بھائی مزمل نے اس کے ساتھ زیادتی کی صرف کوشش کی ‘ جبکہ ماموں نے پانچ سال قبل اسے اپنی ہوس کانشانہ بنایا جس کے باعث وہ بے ہوش ہوگئی تھی ‘عدالت نے قراردیاکہ استغاثہ نے زیردفعہ371 اے کے تحت مسماة بیگم پرجرم ثابت کیاہے جو بیٹی کو بے راہ روی کے لئے استعمال کرتی تھی اوراس مقصد کے لئے وہ بیٹی ک کوکئی مرتبہ لے کربھی گئی ‘عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی قراردیا کہ مقدمے میں غلط طورپر ملزموں کی نامزدگی اس بناءثابت نہیں ہوتی کہ مدعیہ کے والد نے اس کی والدہ کو طلاق دے رکھی ہے اوراس عرصے کے دوران والدکبھی بھی اپنے گھرنہیں آیا۔عدالت نے دونوں جانب سے وکلاءکے دلائل اوراستغاثہ کے گواہوں کے بیانات کی روشنی میں قراردیاکہ ملزموں پر جرم ثابت ہوچکاہے عدالت نے ملزم مزمل کودفعہ376کے تحت 25سال قید بامشقت اورایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزاسنائی‘عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں ملزم مزید چھ ماہ قیدگزارے گا‘اسی طرح عدالت نے ملزم فضل دیان کودفعہ377بی کے تحت20سال قید بامشقت اور10لاکھ روپے جرمانہ کی سزاسنائی‘ مدعیہ کی حقیقی والدہ مسماة بیگم کو20سال قید بامشقت اورایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزاسنائی گئی۔