اصلاحات کا دور

وطن عزیز میں بہت ساری نایاب کتابیں ہیں جو لوگوں کے پاس نجی کتب خانوں میں محفوظ ہیں لیکن ان کا علم عام لوگوں کو نہیں رضا علی عابدی کتابوں کی تلاش میں کراچی پہنچنے پر لکھتے ہیں کہ میرا طیارہ کراچی میں کیا اترا‘ علم و حکمت کے سمندر میں اترا اسکے بعد کے چھ ہفتے مجھے علم سمیٹتے گزرے‘سب سے پہلا انٹرویو مشفق خواجہ کےساتھ تھا‘وہ میرے منتظر تھے‘ ان سے صرف یہ پوچھنے کی دیر تھی کہ بزرگوں کی کتابوں کے ذخیرے کہاں کہاں ہیں؟ انہوں نے دفتر کے دفتر کھول کر رکھ دئیے‘ خصوصاً کراچی اور اسکے نواح میں ان لوگوں کے بارے میں بتایا جو برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندوستان سے اٹھ کر پاکستان آئے اور اپنے کتب خانے ساتھ لیتے آئے‘ پھر یہ کہ آزادی کے ابتدائی برسوں میں کتاب کا جو اعلیٰ ذوق تھا‘ وہ کام آیا اور لوگوں نے کتابیں نہ صرف جمع کیں بلکہ انہیں حفاظت سے رکھا اور مٹنے سے بچایا‘ یہی بات کچھ روز بعد اورنگ آباد میں اردو کے بزرگ شاعر اور دانشور سکندر علی وجد نے کہی کہ کتاب کے عشق کے بغیر کتاب محفوظ نہیں رہ سکتی‘کراچی سے میں سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد پہنچا جہاںاردو سروس کے سامعین کےلئے ٹی پارٹی کا اہتمام کیا گیا تھا‘ وہ شام میرے لئے عجیب تھی‘ میں جن لوگوں سے چار ہزار میل دور بیٹھ کر باتیں کیا کرتا تھا‘ آج وہ میرے سامنے موجود تھے اور ایسا پہلی بار ہورہا تھا کہ سامعین بول رہے تھے اور میں سن رہا تھا سندھ جیسے تاریخی صوبے میں پرانی کتابوں کے ذخیرے کہاں کہاں ہیں؟یہ سوال لےکر میںانسٹیٹیوٹ آف سندھالوجی کے اسوقت کے سربراہ ڈاکٹر غلام علی الانہ کے پاس پہنچا اور وہ بھی اس شان سے کہ نہ تو انہیں اپنے آنے کی پہلے سے خبر دی اور نہ خبردار کیا کہ میں کتنا بڑا اور اہم سوال کرنے آرہا ہوں‘ الانہ صاحب بڑے تپاک سے ملے اور بڑی خندہ پیشانی سے صوبہ سندھ کے ایک ایک گاﺅں اور ایک ایک مکان کا احوال کہہ سنایا جہاں بزرگوں کی کتابیں محفوظ ہیں‘حیدر آباد کے بعد میں لاہور پہنچا‘وہاں مجھے پنجاب پبلک لائبریری دیکھنے کا اشتیاق تھا جو انگریزوں نے 1884ءمیں قائم کی تھی‘ اس عظیم کتب خانے کے قیام کےلئے اتنی ہی عظیم عمارت چنی گئی جو دراصل نواب وزیر خان کی تعمیر کی ہوئی بارہ دری تھی‘ نواب صاحب شاہجہان کے دور میںلاہور کے حاکم تھے‘انگریزوں نے اس طرح کا ایک کتب خانہ پہلے کلکتہ میں قائم کیا تھا‘ برصغیر کے ہر پبلشر کو یہ حکم تھا کہ جو کتاب بھی شائع کرے اس کا ایک ایک نسخہ لاہور اور کلکتہ کے ان کتب خانوں کو ضرور بھیجے‘ یہی سبب تھا کہ میں بڑے شوق سے لاہور کی یہ لائبریری دیکھنے گیا‘ گیا تو پتا چلا کہ ہزاروں کتابیں گمشدہ ہیں لوگ کتاب جاری کرکے لے گئے اور کبھی واپس نہیں کی‘چوری چکاری اسکے علاوہ تھی‘ مجھے وہاں لاہور کے تاریخی روزنامے ’پیسہ اخبار‘ کی فائلیں دیکھنے کا غیر معمولی اشتیاق تھا اور سنا تھا کہ وہاں 1897ءسے 1948ءتک کے پیسہ اخبار کی فائلیں محفوظ ہیں مگر یوں نہ تھا‘ کتنی ہی فائل کم سے کم مجھے تو نہیں نظر آئیں۔ ایک خبر ہے کہ پیسہ اخبار کے سارے شمارے کمپیوٹرمیں محفوظ کرلئے گئے ہیں‘ اب رہ گئے دوسرے اخبار۔ انہیں فنڈ کی کمی اور موسم کے اثرات کی بہتات جلد ہی نگل جائے گی‘ میں نے پنجاب یونیورسٹی کا کتب خانہ دیکھا‘ دیال سنگھ لائبریری دیکھی جو امرتسر کے ایک گاﺅں کے ایک باشندے کی یادگار ہے۔لاہور کے حوالے سے رضا علی عابدی لکھتے ہیں کہ یہی لاہور والے تو ہےں کہ ادھر بارش کا پہلا چھینٹا پڑا اور یہ تانگوں میں لدپھند کر شالا ماریا جہانگیر کے مقبرے یا باغ جناح کی طرف چل پڑے‘ساتھ میں کھانوں سے بھرے برتن ہےں باغوں میں جانے کی جیسی روایت لاہور میں ہے اور کہےں نہےں‘حسن اتفاق سے ادھر اس علاقے کو کچھ ایسے حکام مل گئے جنہوں نے شہر میں بڑے بڑے باغ لگادیئے ماڈل ٹاﺅن کے درمیان جو بہت بڑی زمین خالی پڑی تھی اس میں دائرہ نما پارک بن گیا ہے ملک میں گھوڑدوڑبند ہوگئی تو لاہور والوں نے لق ودق ریس کورس گراﺅنڈ کو با غ بنادیا لارنس گارڈن تو پہلے سے تھا مگر اسے باغ جناح کا نام دینے کے بعد صحیح معنوں میں گل وگلزار بنادیا گیاکہ گرمیوں میں لوگوں کا باغوں میں آنا تعجب کی بات نہےں لاہور میں لوگ شدید سردیوں میں بھی اوڑھ لپیٹ کرپارکوں میں آتے ہےں کیسا ہی موسم ہو ‘وہ ضرور آئیں گے ‘گھومیں گے‘ دیکھیں گے‘گپیں ماریں گے اور پھر چلے جائیں گے۔