چاپان :آتش فشاں پہاڑوں کی بہتات 

پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق سربراہ آغا ناصر اپنے سفرنامے میں جاپان میں ہونے والے ایک لیکچر کی تفصیل لکھ کر جاپان کے جغرافیے ‘تاریخ اور ثقافت سے متعلق معلومات بھی دے رہے ہےں وہ اپنی تربیت سے متعلق لکھتے ہےںکہ پہلا لیکچر ٹوکیو یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے سربراہ پروفیسر تناکا کا تھا جو کہ بے حد موثر اور دلچسپ تھا اگرچہ وہ جاپانی زبان میں بول رہے تھے مگرانگریزی ترجمہ سننے سے پہلے ہی حاضرین ان کی آدھی بات سمجھ جاتے تھے انہوں نے جاپان کے جغرافیہ اور تاریخ کے بارے میں بتایا‘جاپان کی تاریخ بہت قدیم ہے یہ ملک چھ ہزار آٹھ سو جزیروں پر مشتمل ہے جو بحرالکاہل میں واقع ہے یہاں کے پہاڑوں کا شمار انتہائی خوبصورت مقامات میں ہوتا ہے ملک کا سب سے زیادہ مشہور پہاڑ فیوجی ہے ‘ دنیا بھر کے دس فیصد آتش فشاں پہاڑ جاپان میں ہےں ان آتش فشاں پہاڑی سلسلوں میں اکثر قدرتی چشمے ملتے ہےں آتش فشاں پہاڑوں کی بہتات کے سبب جاپان میں زلزلوں کا ایک مستقل سلسلہ ہر موسم میں جاری رہتا ہے‘ جاپانی باشندے کھیل کود اور صحت مندانہ سرگرمیوں کے بہت شوقین ہےں پیدل چلنا اور پہاڑوں پر چڑھنا ان کے محبوب مشغلے ہےں کوہ پیمائی کےلئے جاپانی دنیا کے ہر حصے میں جاتے ہےں‘ تیراکی اور شہسواری بھی جاپان میں بہت مقبول ہےں ویسے اگر سچ پوچھیں تو جاپان میں کھیلوں کا دائرہ روایتی سے لے کر بین الاقوامی کھیلوں تک پھیلا ہوا ہے اہم تاریخی اور جغرافیائی معلومات کے علاوہ پروفیسر تناکا نے اور بھی بہت سی چھوٹی چھوٹی دلچسپ باتیں بتائیں مثلاً جاپانی مرد جب ساٹھ سال کی عمرکو پہنچتا ہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ بزرگی کی حدود میں داخل ہوگیا ہے یہ دن بڑی مسرت وشادمانی کےساتھ منایا جاتا ہے بزرگ بن جانےوالا مرد سرخ رنگ کا روایتی جاپانی لباس’کمینو‘ پہنتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کو بزرگی کا رتبہ حاصل ہوگیا ہے جاپانی گھر بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہےں اور کمروں میں فرش پر چٹائیاں بچھی ہوتی ہےں ‘ فرش پر بچھی ہوئی چٹائیوںکو صاف رکھنے کےلئے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتارنا ضروری سمجھا جاتا ہے جاپان میں قیام کے دوران ہمارے دوبڑے مسئلے تھے ایک کھانا اور دوسرا زبان‘ جاپانی کھانا ہمیں ایک آنکھ نہےں بھایا ہر چیز اس قدر کچی ہوتی تھی کہ حلق سے نوالہ اتارنا مشکل معلوم ہوتا تھا ایک اور مقام پرآغا ناصر لکھتے ہےں کہ کارڈف میںایک روز قیام کے بعد ہمارا مختصر سا قافلہ سکاٹ لینڈ کےلئے روانہ ہوا‘سکاٹ لینڈ کا دارالحکومت ایڈنبرا یقینا ایک بہت خوبصورت شہر ہے اسکی شہرت ایک تعلیمی اور ثقافتی مرکز کے سبب بھی ہے دوسرے دن ہم سب کو سیر کےلئے جانا تھا ہماری منزل جھیل لومونڈ تھی‘ جھیل کیا تھی پورا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا‘ شفاف نیلا پانی اور اس میں سرسبز درختوں کا عکس‘ جھیل کے کنارے کھڑے ہم سب اس جاں فزا منظر کو دیکھتے رہے سیاحوں کا ہجوم تھا بوڑھے امریکی جوڑے چست جاپانی اور رنگارنگ پوشاکوں میں ملبوس یورپی سیاح وہ سب سکاٹ لینڈ کے بنے ہوئے گرم اونی سویٹر‘ اور خوبصورت ٹوپیاں پہنے جھیل کے اطراف میں گھوم رہے تھے‘ایڈنبرا میں قیام کے دوران میں نے رابرٹ لوئی سٹیونسن کا اپارٹمنٹ بھی دیکھا جہاں اس نے اپنی زندگی کے دن گزارے تھے‘ سٹےونسن میرا پسندیدہ مصنف ہے میرا پہلا ڈرامہ جوریڈیو پرنشر ہوا اسی کی ایک کہانی پر مبنی تھا اسکے علاوہ اس کی ایک اور کہانی ’مارخیم کی ریڈیائی تشکیل پر مبنی ڈرامہ بھی میںنے سٹوڈیو نمبر ٹو کےلئے پروڈیوس کیا تھا ایڈنبرا ہمارے سفر کی آخری منزل تھی اگلے دن ہم واپس لندن روانہ ہوئے جواب ہمیں اس طرح یاد آنے لگا تھا جیسے اپنا گھر‘ برطانیہ کے سیاحتی سفر سے واپسی کے بعد میں نے چار پانچ روز لندن میں گزارے لیکن یہ وقت واپس جانے کے انتظامات اور لندن کے احباب کو الوداع کہنے میں اتنی جلد گزر گیاکہ معلوم ہی نہ ہوا۔۔