انتخابی تنازعات کی سماعت : آرڈیننس لانا پارلیمنٹ کی توہین، لاہور ہائی کورٹ نے انتخابی عمل روک دیا تھا، کیا الیکشن کمیشن کو ختم کردیں؟ پارلیمنٹ کی وقعت زیادہ ہے یا کابینہ کی وقعت زیادہ ہے؟ چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے پنجاب میں انتخابی تنازعات کی سماعت کے لئے آٹھ الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل سے متعلق دائر کی گئی الیکشن کمیشن کی اپیلوں کی سماعت کے دوران اپیل گزار، الیکشن کمیشن کی الیکشن ٹریبونلز کے قیام سے متعلق سنگل بنچ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی۔

عدالت نے آبزوریشن دی ہے کہ آرڈیننس لانا پارلیمنٹ کی توہین ہے، اس سے ہائیکورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی بھی کی گئی۔ لاہورہائیکورٹ نے انتخابی عمل روک دیا تھا، کیا الیکشن کمیشن ختم کردیں؟ 

دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آرڈیننس لانے کی وجہ کیا تھی؟ کیا ایمرجنسی تھی؟ کس کی خواہش تھی؟ اس پر لا افسر نے جواب دیا کہ چیف جسٹس، کابینہ اور وزیراعظم کی خواہش پر لایا گیا، اس پر عدالت نے مزید دریافت کیا کہ پارلیمنٹ کی وقعت زیادہ ہے یا کابینہ کی وقعت زیادہ ہے۔

اگرایسا ہے تو پارلیمنٹ کو بند کردیں۔سپریم کورٹ نے اس حوالے سے لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ ججوں کی 3 رکنی کمیٹی کو بھیج دیا ہے جبکہ ا پنے حکمنامہ میں الیکشن کمیشن سے سندھ اور بلوچستان ہائیکورٹ میں الیکشن ٹریبونلز کے قیام کے لیے اپنائے گئے طریقہ کار کی تفصیلات اور تمام ہائیکورٹس اور الیکشن کمیشن کے درمیان ٹریبونلز کی تشکیل کے لیے ہونے والی خط و کتابت کا مکمل ریکارڈ بھی طلب کرلیا ہے۔

عدالت نے پی ٹی آئی کے نو امیدواروں کو بھی فریق بنانے کی استدعا منظور کرتے ہوئے نوٹسز جاری کردیے ہیں اور قرار دیا ہے کہ اس مقدمہ کے فیصلے کا اطلاق پورے ملک پر ہوگا، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ آئین بالکل واضح ہے، الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کا اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل ہے، آرٹیکل 219 کی دفعہ سی بالکل واضح ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے آئین و قانون کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے، عدالتی فیصلوں پر حلف نہیں لیا ہے، فاضل چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب سے ہائیکورٹ کے لیےʼʼ قابل احترامʼʼ کا لفظ کہنے پر ریمارکس دیے کہ آپ ہائیکورٹ کو قابل احترام کہہ رہے ہیں؟حالانکہ یہ لفظ ججوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انگریزی زبان انگلستان کی ہے، کیا وہاں پارلیمنٹ کو بھی قابل احترام کہا جاتا ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں پر پارلیمنٹیرین ایک دوسرے کو احترام نہیں دیتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے گالم گلوچ کی جاتی ہے، ہم تو چاہتے ہیں کہ انکے مابین بھی باہمی احترام پیدا ہو۔

انہوں نے فاضل لاء افسر سے استفسار کیا کہ آپ لوگ الیکشن کمیشن کو قابل احترام کیوں نہیں کہتے ہیں؟ کیا الیکشن کمیشن قابل احترام ادارہ نہیں ہے؟ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم افغان پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی تو الیکشن کمیشن کے لاء افسر سکندر بشیر اور پاکستان تحریک انصاف کے وکیل سلمان اکرم راجہ پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے سکندر بشیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کیس کے کچھ حقائق بتائیں جس پر انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اس مقدمہ میں آئین کے آرٹیکل 219 سی کی تشریح کا معاملہ ہے، انہوں نے بتایا کہ 14 فروری کو الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں انتخابی تنازعات کی سماعت کے لیے ٹریبونلز کی تشکیل کے لیے تمام ہائیکورٹوں کو خطوط لکھے تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ انتخابی ٹریبونلز کی تشکیل الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، ہم نے تمام ہائیکورٹوں کو خطوط لکھ کر ان سے ججوں کے ناموں کے پینل مانگے گئے تھے، جس پر قابل احترام لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے 20 فروری کو 2 ججوں کے نام دیے گئے تھے، جنہیں الیکشن ٹریبونلز کے لیے نوٹیفائی بھی کردیا گیا، 26 اپریل کو مزید 2 الیکشن ٹریبونل تشکیل دیے گئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ 4 ٹربیونلز کی تشکیل تک کوئی تنازعہ نہیں اٹھا تھا، دوران سماعت چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کرسکتے ہیں؟ 

کیا پاکستان میں ہر چیز کو متنازعہ بنانا لازمی ہے؟انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگر چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر اکٹھے بیٹھ جاتے تو اب تک اس تنازعہ کا بھی کوئی حل نکل آتا، بیٹھ کر بات کرتے تو کسی نتیجہ پر پہنچ جاتے، انہوں نے مزید کہا کہ آئین میں کہیں نہیں لکھاہے کہ چیف الیکشن کمشنر کسی جج سے ملاقات نہیں کرسکتے ہیں۔