بھارت: داخلی عدم استحکام

جنوبی ایشیا پر ایک مرتبہ پھر جنگ کے بادل اور خوف منڈلا رہے ہیں۔ بائیس اپریل کو مقبوضہ کشمیر میں پہلگام وادی کے بیسران نامی گاؤں میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد نئی دہلی نے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اسلام آباد نے بھی جواباً شملہ معاہدے کو کالعدم قرار دینے کی دھمکی دی اور اطلاعات ہیں کہ دونوں ممالک نے اپنے فوجیوں کی تعداد میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ اِس صورتحال کے تناظر میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ذاتی طور پر وزیر اعظم شہباز شریف اور بھارتی وزیر خارجہ ایس جئے شنکر سے رابطہ کیا اور بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اِس بات پر زور دیا کہ کسی ایسے (ممکنہ) تصادم سے بچنے کی ضرورت ہے جس کے المناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ بائیس اپریل کے حملہ آوروں (پانچ افراد) کے بارے میں بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ ”مزاحمتی محاذ“ نامی تنظیم سے وابستہ تھے جنہوں نے چھبیس سیاحوں (پچیس بھارتی شہریوں اور ایک مقامی گائیڈ) پر گولیاں چلائیں۔ یہ سال 2008ء کے بعد سے کشمیر میں ہونے والا سب سے مہلک حملہ تھا۔ چند گھنٹوں کے اندر بنا ثبوت پیش کئے نئی دہلی نے عالمی بینک کی ثالثی میں پانچ دہائیوں پر محیط سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا، جس پر پاکستان کی آبپاشی کا تقریباً 80فیصد انحصار ہے۔ اسلام آباد نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے اپنی فضائی حدود بند کردی، دوطرفہ تجارت روک دی اور یہ اشارہ دیا کہ وہ 1972ء کے شملہ معاہدے کو منسوخ کر سکتا ہے، جو نصف صدی سے جنگ بندی کے پروٹوکول پر مبنی ہے۔ پہلگام واقعے کے بعد ’لائن آف کنٹرول‘ پر بھارت کی جانب سے گولہ باری ہوئی۔ دو روز قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے خبردار کیا تھا کہ بھارتی دراندازی قریب ہے جبکہ وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے منگل کے روز دعویٰ کیا تھا کہ چوبیس سے چھتیس گھنٹوں کے اندر حملے کی ’قابل اعتماد انٹیلی جنس‘ موجود ہے۔ یہاں تک کہ جب فوجیں آمنے سامنے ہیں، بھارت میں بھیڑ نے فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینے کے لئے موجودہ بحران کا فائدہ اٹھایا ہے۔ بھارت کے اندر پولرائزنگ کی لہریں سماجی تانے بانے کو توڑ رہی ہیں۔ اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پندرہ سالہ مسلمان طالب علم کو پاکستانی جھنڈے کی بیحرمتی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ نوجوان کو کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے نعرے لگانے پر مارا پیٹا گیا۔ اِسی طرح کرناٹک کے منگلورو میں ایک کرکٹ میچ کے دوران مبینہ طور پر ”پاکستان زندہ باد“ کے نعرے لگانے پر ایک شخص کو مار پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔ اتراکھنڈ کے مسوری میں سولہ کشمیری شال بیچنے والوں کو مشتعل ہجوم نے مال روڈ سے بھگا دیا۔ تین زخمی دکانداروں کو علاج کی ضرورت پڑی اور گلی کوچوں میں پھیلے تعصب کی وجہ سے ان کا ذریعہ معاش برباد ہو گیا۔بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ مختصر نہیں ہو سکتی ہے۔ بھوک، غربت، صحت عامہ کی تباہی اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے۔ ایل او سی کی صورتحال کی وجہ سے جنوبی ایشیا کی ترقی اور عالمی استحکام یکساں طور پر متاثر ہوئے ہیں یوں بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے خطہ غیرمستحکم ہوا ہے۔ سرحد کے دونوں جانب 336 ملین سے زائد بالغ افراد ناخواندہ ہیں، جو عالمی آبادی کا تقریباً 44 فیصد ہیں۔ یہ زمین پر سب سے بڑی ناخواندہ آبادی ہے۔ بھارت اور پاکستان مجموعی طور پر دنیا کے تقریبا ً140 ملین غریب ترین افراد کی پناہ گاہ ہیں۔ ایسے غریب ترین لوگ جن کی یومیہ آمدنی 2.15 امریکی ڈالرز سے کم ہے۔ اِس صورتحال میں کوئی بھی ملک جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بھارت کو جنگ مسلط کرنے سے روکنے کے لئے عالمی طاقتوں اور اہم خلیجی شراکت داروں کو ہر سفارتی اور معاشی حربہ استعمال کرنا چاہئے تاکہ بھارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور ہر قسم کی اشتعال انگیزی اور بالخصوص بیان بازی سے گریز کرے جس کی وجہ سے دونوں ممالک حقیقی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر یوسف نذر۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔