فرق صاف ظاہر ہے

چین اور روس دونوں کمیونسٹ ممالک ہیں لیکن جہاں قدرت نے چین کو دور اندیش‘ معاملہ فہم اور سنجیدہ قیادت فراہم کی ہے وہ روس کے حصے میں نہیں‘قیام پاکستان کے دو سال بعد چین میں سرخ انقلاب کے ذریعے ماؤزے تنگ چو این لائی اور ان کے تربیت یافتہ کمیونسٹ کامریڈوں نے چین میں صحیح معنوں میں عوامی انقلاب برپا کیا ان کی عوام دوست پالیسیوں میں ایک تسلسل تھا جن میں چینی فلاسفر کنفیوش کا فلسفہ بھی پنہاں تھا اور ہزاروں سال پر محیط تہذیب بھی‘ یہاں اس بات کاذکر  ضروری ہے کہ گو کہ اس وقت کے سوویت یونین کا لیڈر لینن بھی مارکنزم کی کوکھ سے پیدا ہوا تھا اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کا سربراہ ماوزئے تنگ بھی مارکنزم کا داعی تھا لیکن جن خطوط پر ماوزئے تنگ اور ان کے دست راست چو این لائی نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے اراکین کی سیاسی اور ذہنی تربیت کی تھی اور بدرجہا یقین کے کامریڈوں کی تربیت کے معیار سے بہتر تھی جس کا ثبوت ہیں لینن اور ماوزے تنگ کے بعد دیکھنے کو ملا ماوزئے تنگ اور چواین لائی دنیا بھر کے محنت کش عوام کیلئے استعارہ بن گئے اور ان کے عملی فلسفے نے تمام براعظموں میں معاشی مساوات کی کئی عوامی تحریکوں کو جنم دیا لینن کے بعد سوویت یونین میں کمیونسٹ پارٹی اس پائے اور معیار کے کامریڈ پیدا نہ کرسکی کہ جو چین کی کمیونسٹ پارٹی نے ماوزئے تنگ اور چو این لائی کی تربیت اور رہنمائی نے پیدا کئے اس کی جھلک چین کے موجودہ صدر کے کردار اور سیاست میں نظر آتی ہے اگر لینن کے بعد سوویت یونین میں لینن جیسے لیڈر پیدا ہوتے رہتے تو سوویت یونین کا شیرازہ کبھی نہ بکھرتا‘ یہ بات قابل غور ہے کہ روس اور چین دونوں گرم پانیوں کے حصول کیلئے گوادر پہنچننا چاہتے تھے لیکن روس اس مقصد کو حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا اور اس نے اپنی اس خواہش کی تکمیل کیلئے بے پناہ خون بہایا اپنا بھی اور ان قوتوں کا بھی کہ جو اس کی اس خواہش کے حصول کی راہ میں رکاوٹ تھیں لیکن اسکے برعکس اعلیٰ حکمت عملی اور سفارت کاری کے ساتھ چین اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوگیا اور آج اگر دنیا میں چین کی جے جے کار ہے  تواس کے پیچھے اس کی اعلیٰ ڈپلومیسی کا  بڑا ہاتھ ہے ایران اور امریکہ کے تعلقات پہلے ہی سے خراب تھے اور اب جو امریکہ نے ان ممالک کے ساتھ پنگا لینے کی کوشش کی ہے کہ جو ایران سے تیل خریدیں گے تو اس سے ایران اور امریکہ کے تعلقات مزید بگڑیں گے امریکہ میں یہودیوں کی لابی ٹرمپ کی پالیسیوں پر بری طرح اثر انداز ہورہی ہے اکثر لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں لیکن باوجود اس حقیقت کے کہ روس اور چین دونوں کمیونسٹ ممالک ہیں اتنے لمبے عرصے تک وہ آپس میں شیروشکر کیوں نہ رہے اس کا جواب یہ ہے کہ لینن کی وفات کے بعد روس میں پیوٹن کی ایوان حکومت میں آنے کے بعد ایسے لیڈر برسراقتدار رہے جن کی سیاسی سوچ اور دانشمندی پر کئی سوالیہ نشانات اٹھتے ہیں اگر وہ پیوٹن کی طرح دور اندیش ہوتے تو روس چین کے ساتھ کب کا شیروشکر ہو چکا ہوتا پیوٹن اور چین کی موجودہ قیادت کا ایک پیج پر آجانا امریکہ کیلئے پریشانی کا باعث بن چکا ہے وہ اب اس تگ ودو میں ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے روس اور چین کی اس دوستی میں رخنہ ڈالا جائے اور امریکہ کی سی آئی اے کو یہ ٹاسک حوالے کردیاگیا ہے کہ وہ چین اور روس کے اتحاد کو توڑنے کیلئے ہر قسم کاحربہ استعمال کریں جہاں تک وطن عزیز کا تعلق ہے  ہمارے ارباب نصب و کشاد کو چین اور روس کے ساتھ دوستی کا ہاتھ ہمیشہ بڑھا کر رکھنا چاہئے وقت کا تقاضا ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ اگر دنیا میں ہمارا کوئی خیر خواہ ہے تو وہ صرف چین ہے اور روس کے  ساتھ بھی دوستی اس لئے ضروری ہے کہ ہم نے امریکہ کو خوش رکھنے کیلئے خواہ مخواہ1947ء کے بعد ایک لمبے عرصے تک اس کے ساتھ  تعلقات ٹھیک نہیں رہے  جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں اپنے ہمسایہ ملک سوویت یونین کو ناراض کرکے سات سمندر پار واقع امریکہ کے ساتھ محبت کی پینگیں  بڑھانے میں بھلا کیا دانشمندی تھی۔