پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کو "ہزار زخم دینے" کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، اور اس وقت دونوں ممالک میں جنگ کے طبل پہلے سے زیادہ شدت سے بج رہے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد سے اب تک یہ دونوں جوہری طاقتیں چار بڑی جنگیں لڑ چکی ہیں اور کشمیر کے تنازعے پر متعدد مرتبہ محاذ آرائی میں ملوث رہی ہیں۔ ایسے میں ان کی موجودہ عسکری طاقتوں کا تقابلی جائزہ خاصا دلچسپ اور اہمیت کا حامل ہے۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ کا دروازہ بند ہوچکا ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو بڑی تباہی ہوگی ، بھارت کی جانب سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کا خدشہ ہے ۔
بین الاقوامی سطح پر دفاعی طاقت کا تجزیہ کرنے والی ویب سائٹ "گلوبل فائر پاور"، جو 2006سے دنیا کے 145 ممالک کی افواج کا جائزہ لے رہی ہے، نے اپنی تازہ درجہ بندی میں پاکستان کو سال 2025 میں بارہویں نمبر پر رکھا ہے، جبکہ بھارت دنیا کی چوتھی بڑی عسکری طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے، اس فہرست میں صرف امریکہ، روس اور چین بھارت سے آگے ہیں۔
دوسری جانب، اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت دنیا کا پانچواں بڑا دفاعی خرچ کرنے والا ملک ہے، جو سالانہ 86 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے، جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ 10ارب ڈالر ہے، جو بھارت کے مقابلے میں تقریباً نو گنا کم ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے پاس رعد (ہاتف-8) کروز میزائل موجود ہے، جو پاکستان ایئر فورس کی جوہری اسٹینڈ آف صلاحیت کو بڑھاتا ہے۔
ان فوجی صلاحیتوں اور اخراجات کے تناظر میں، مختلف آراء سامنے آئی ہیں:سابق قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ نے مبینہ طور پر خیال ظاہر کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا دروازہ مؤثر طریقے سے بند ہو چکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا، تو یہ مکمل تباہی کا باعث بنتا۔ تاہم، 2017 کی پرانی رپورٹس بتاتی ہیں کہ انہوں نے پہلے خبردار کیا تھا کہ جنوبی ایشیا میں جوہری جنگ کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس ایک مکمل طور پر لیس فوج موجود ہے۔میجر جنرل اعجاز اعوان دونوں ممالک کے درمیان کسی میزائل تبادلے کو نہیں دیکھتے۔ تاہم، وہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر ممکنہ بھارتی حملے یا بلوچستان یا خیبر پختونخوا (کے پی) میں دہشت گردانہ حملے کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں۔
سپری کی رپورٹ کے مطابق، دفاعی اخراجات میں سرفہرست ممالک میں امریکہ، چین، روس، جرمنی، بھارت، برطانیہ، سعودی عرب، یوکرین، فرانس اور جاپان شامل ہیں۔گلوبل فائر پاور انڈیکس کے مطابق پاکستان کے پاس 6,54,000 فعال فوجی، 5,00,000 نیم فوجی اہلکار، اور 5,50,000 ریزرو اہلکار موجود ہیں۔
اس کے برعکس بھارت کے فعال فوجی اہلکاروں کی تعداد 14,55,550، نیم فوجی اہلکار 25,27,000، اور ریزرو اہلکار 11,55,000 ہیں۔ ہوائی قوت میں پاکستان کے پاس 1,399 طیارے ہیں جن میں سے 328جنگی طیارے اور 373ہیلی کاپٹر ہیں، جبکہ بھارت کے پاس 2,229 طیارے، 513جنگی طیارے اور 899 ہیلی کاپٹر موجود ہیں۔ زمینی فوجی اثاثوں میں پاکستان کے پاس 2,627ٹینک، 17,516بکتر بند گاڑیاں، 662 خودکار توپیں، 2,629 گھسیٹنے والی توپیں، اور 600 موبائل راکٹ لانچرز ہیں۔
بھارت کے پاس ان میں سے زیادہ تر اثاثے بڑی تعداد میں موجود ہیں جن میں 4,201 ٹینک، 1,48,594 بکتر بند گاڑیاں، اور 3,975 توپیں شامل ہیں۔بحری قوت کے لحاظ سے پاکستان کے پاس 121جہازوں کا بیڑہ ہے، جس میں 8 آبدوزیں اور 9فریگیٹس شامل ہیں۔ اس کے برعکس بھارت کے بحری بیڑے میں 293 جہاز، 2 طیارہ بردار جہاز، 18 آبدوزیں، اور 14 فریگیٹس شامل ہیں۔ ہوائی اڈوں کی تعداد پاکستان میں 116 اور بھارت میں 311ہے۔ مرچنٹ نیوی کی بات کی جائے تو پاکستان کے پاس 60 جبکہ بھارت کے پاس 1,859 تجارتی جہاز ہیں، اور پاکستان کے 3 کے مقابلے میں بھارت کے پاس 56بندرگاہیں اور ٹرمینل موجود ہیں۔