چمڑوں پر لکھائی سے لے کر آج کے اخبارات تک، پرنٹ فارمیٹ کا ہمیشہ معلومات کی دنیا میں ایک خاص مقام رہاہے، چاہے وقت کتنا ہی بدل جائے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں، جہاں سوشل میڈیا لوگوں کی پہلی پسند بنتا جا رہا ہے، اسی سوشل میڈیا نے اپنے اندر چھپے عفریت کو باہر دکھا دیا ہے۔ 6اور 7مئی 2025ء کی رات، جب بھارت نے پاکستان پر پہلا حملہ کیا، سے لے کر اب تک، فیک نیوز کی ایک ایسی طوفانی لہر آئی ہے جس نے سوشل میڈیا کی رہی سہی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں نے حالات کو مزید بگاڑ دیا۔ بھارتی سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز گردش کرتی رہیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ بھارتی میزائلوں نے پاکستان کے شہروں کو تباہ کر دیا، لیکن بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ ویڈیوز
تو پرانی تھیں، جیسے کہ ایرانی میزائلوں کی اسرائیل پر حملے کی فوٹیج، یا پھر غزہ سے لی گئی تین ہفتوں پرانی ویڈیوز تھیں جن میں عربی بولتے لوگ دکھائی دے رہے تھے،کچھ ویڈیوز تو ویڈیو گیمز سے لی گئی تھیں۔ اس جھوٹ کے بازار میں ہندوستان میں سرکاری سرپرستی میں چلنے والے اکاؤنٹس بھی پیچھے نہیں رہے۔ بھارت میں کئی سرکاری اور حکومتی حمایت یافتہ اکاؤنٹس نے پرانی، ترمیم شدہ، اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے
بنائی گئی ویڈیوز کو پھیلایا۔ ایک ویڈیو یوکرین-روس تنازع سے لی گئی تھی۔ بدقسمتی سے، الیکٹرانک میڈیا بھی اس دلدل میں پھنس گیا۔ بھارتی میڈیا نے ان جھوٹی ویڈیوز کو اٹھایا اور اپنے چینلز پر چلا کر عوام کو گمراہ کیا۔ اگرچہ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا نے زیادہ تر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، لیکن چند ایک چینلز یہاں بھی جھوٹی خبروں کے جال میں پھنس گئے۔ اس تمام افراتفری کے بیچ، پاکستان کا پرنٹ میڈیامضبوط کھڑا رہا۔ یہاں کے اخبارات نے نہ صرف جھوٹی خبروں سے خود کو دور رکھا بلکہ ایک پیشہ ورانہ ایڈیٹوریل لائن کو برقرار رکھا۔ انہوں نے حقائق کی جانچ پڑتال کی، ذرائع کی تصدیق کی، اور صرف وہی خبریں شائع کیں جن کی صداقت پر انہیں یقین تھا۔ جب سوشل میڈیا پر افواہوں کا
طوفان آیا، تو پرنٹ میڈیا نے اپنے قارئین کو درست معلومات فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ سوشل میڈیا اپنی تیزرفتاری اور وسیع رسائی کے باؤجود مستند خبروں کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ یہ ثابت کر چکا ہے کہ جھوٹ پھیلانے کے لئے یہ کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب، پرنٹ میڈیا نے اپنی اہمیت کو دوبارہ ثابت کیا ہے۔ چاہے وہ 16ویں صدی میں جرمنی کے پہلے اخبارات ہوں یا آج کے دور کے پاکستانی اخبارات، پرنٹ میڈیا ہمیشہ سے حقائق کی روشنی میں ایک معتبر آواز رہا ہے۔ اس کی ساکھ، جانچ پڑتال کا عمل، اور پیشہ ورانہ ذمہ داری اسے سوشل میڈیا سے ممتاز کرتی ہے۔ جب تک لوگ سچائی کی تلاش میں رہیں گے، پرنٹ میڈیا اپنی جگہ برقرار رکھے گا۔ سوشل میڈیا بہت کچھ فراہم کر سکتا ہے، لیکن وہ کبھی بھی پرنٹ میڈیا کی صداقت اور اعتماد کا نعم البدل نہیں بن سکتا۔