جب جھوٹ پکڑنے والے آلات جیسے ڈیجیٹل ٹولز کو مجرمانہ تحقیقات میں شامل کیا جاتا ہے، تو یہ کئی اہم سوالات کو جنم دیتا ہے: کیا کسی مشتبہ شخص کو اس کی رضامندی کے بغیر پولی گراف ٹیسٹ کرانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے؟ کیا ایسے ٹیسٹ کے نتائج عدالت میں قابلِ قبول ثبوت کے طور پر استعمال کئے جا سکتے ہیں؟ان سوالات کا جائزہ لینے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ پولی گراف ٹیسٹ ہوتا کیا ہے۔ عام طور پر جھوٹ پکڑنے والے ٹیسٹ کے طور پر جانا جانے والا یہ طریقہ دل کی دھڑکن‘ بلڈ پریشر‘سانس لینے کی رفتاراور جلد کے برقی ردِ عمل جیسے جسمانی اشاریوں کو ماپتا ہے جب فرد سے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ مفروضہ یہ ہے کہ جھوٹ بولنے پر جسمانی ردِ عمل مختلف ہوتا ہے تاہم یہ تکنیک کسی ایسی سائنسی بنیاد پر قائم نہیں جسے قانون یا طبیعیات کے ماہرین تسلیم کرتے ہوں، اس لئے اس کے نتائج کو قطعی ثبوت نہیں سمجھا جاتا۔کسی شخص کو ایسے ٹیسٹ پر مجبور کرنا براہِ راست آئینی حقوق سے متصادم ہے، خصوصاً خود کو الزام سے محفوظ رکھنے اور پرائیویسی کے حق کے حوالے سے۔پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 13(b)اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ: ”کسی ملزم کو اپنے خلاف گواہی دینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔“یہ تحفظ ایک منصفانہ ٹرائل کے اصول کی بنیاد ہے تاکہ کسی کو زبردستی ایسے شواہد دینے پر مجبور نہ کیا جائے جو اس کے خلاف استعمال ہو سکیں‘اس حوالے سے ایک اہم فیصلہ بھارتی سپریم کورٹ کا مقدمہ ”سیلوی و دیگر بمقابلہ ریاست کرناٹک (2010) ہے، جس میں عدالت نے نرکو اینالیسس، پولی گراف اور برین میپنگ جیسے طریقوں کی غیر رضاکارانہ انجام دہی کو آئین کے آرٹیکل 20(3)اور 21کی خلاف ورزی قرار دیا، جو بالترتیب خود کو الزام سے بچانے اور شخصی آزادی و ذہنی و جسمانی پرائیویسی کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں‘اس فیصلے میں واضح کیا گیا کہ کسی فرد کو پولی گراف ٹیسٹ کیلئے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی رضامندی دے بھی دے، تب بھی قانونی نمائندگی اور ایک غیر جانبدار طبی ماہر کی موجودگی جیسے حفاظتی اقدامات لازم ہیں‘اسی طرح امریکہ میں بھی کسی شخص کو زبردستی پولی گراف ٹیسٹ کروانا آئین کی پانچویں ترمیم کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے، جو خود کو الزام سے بچانے کا حق دیتی ہے‘قانونی لحاظ سے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پولی گراف کے نتائج عدالت میں بطور ثبوت قابلِ قبول ہیں؟ دنیا بھر کی عدالتیں ان ٹیسٹ کی سائنسی حیثیت اور اعتبار پر شکوک کا اظہار کرتی رہی ہیں۔بھارتی عدلیہ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگرچہ رضامندی سے لیے گئے پولی گراف نتائج تفتیش میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن انہیں سزا کا واحد بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ ان کی غیر یقینی سائنسی بنیاد اور غلط استعمال کے خطرے کے باعث، ایسے نتائج کو بطور مضبوط ثبوت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔امریکہ میں ایسے سائنسی شواہد کی قبولیت کا انحصار ”فری“اور ”ڈوبرٹ“ جیسے معیارات پر ہوتا ہے، جو سائنسی برادری میں عام قبولیت اور سائنسی طریقہ کار کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔ پولی گراف اکثر ان معیارات پر پورا نہیں اترتا اور اس کے نتائج کو اس خدشے کے پیش نظر مسترد کر دیا جاتا ہے کہ یہ جیوری پر غیر معمولی اثر ڈال سکتے ہیں۔برطانیہ میں فوجداری مقدمات میں پولی گراف استعمال نہیں کیا جاتا اور یورپی یونین میں انسانی حقوق کو ترجیح دی جاتی ہے، جس کے باعث ایسی تکنیکوں پر احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔پاکستان میں ”حسنین مصطفی بمقابلہ ریاست“کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے پولی گراف کو ایک جدید طریقہ تسلیم کیا، جو دھوکہ دہی کی نشاندہی کر سکتا ہے، لیکن اس کے نتائج کو جرم کے اعتراف کے برابر نہیں سمجھا جا سکتا۔قانونی دائرہ سے ہٹ کر، اخلاقی پہلو بھی نہایت اہم ہیں۔ رضامندی کے حصول کے دوران ممکنہ دباؤ یا زبردستی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ، جسمانی ردِ عمل محض جھوٹ کی علامت نہیں ہوتے بلکہ بے چینی، طبی کیفیت یا ماحول کا اثر بھی ہو سکتے ہیں۔ایک اور اہم پہلو ادارہ جاتی غلط استعمال کا خدشہ ہے۔ خاص طور پر ہائی پروفائل مقدمات میں تحقیقاتی ادارے عوامی رائے کو متاثر کرنے یا جعلی پیش رفت دکھانے کے لئے پولی گراف کے نتائج کا سہارا لے سکتے ہیں، چاہے سائنسی طور پر ان کی کوئی حیثیت نہ ہو۔ اس پر انحصار کرنا زیادہ معتبر ذرائع جیسے فارنزک تجزیے، گواہوں کی شہادت اور ڈیجیٹل ثبوت سے توجہ ہٹانے کا باعث بن سکتا ہے۔یہ ٹیسٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تفتیشی صلاحیت کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ نفسیاتی دبا ؤیا تحقیقاتی سراغ کے لئے مددگار ہو سکتے ہیں، انہیں آئینی طریقوں اور بنیادی حقوق پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔قانونی اور علمی حلقوں میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ کسی کو پولی گراف ٹیسٹ کے لئے مجبور نہیں کیا جا سکتا، اور اس کے نتائج کو محدود دائرے میں ہی قابلِ قبول قرار دیا جانا چاہیے۔ عدالتوں نے بجا طور پر کہا ہے کہ فوجداری نظامِ انصاف کو مشکوک سائنس کے سہارے تماشہ نہیں بننے دینا چاہیے۔عمران خان کی جانب سے پولی گراف ٹیسٹ سے انکار پر ہونے والی بحث اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ قانون‘ سائنس اور اخلاقیات کے درمیان توازن کس قدر نازک ہے۔ اگرچہ پولی گراف ٹیسٹ تحقیقاتی معاونت فراہم کر سکتے ہیں، مگر ان کی حدود و خامیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ قانونی نظام کو چاہیے کہ رضامندی، قانونی کاروائی، اور خود کو الزام سے محفوظ رکھنے کے حق کو مقدم رکھے تاکہ انصاف نہ صرف کیا جائے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔(مصنف سابق سیکرٹری ہوم اینڈ ٹرائبل افیئرز ڈیپارٹمنٹ اور ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل آف پولیس ہیں)
مقبول خبریں
افغان مہاجرین واپسی کی محتاط پالیسی
مہمان کالم
مہمان کالم
پولی گراف ٹیسٹ کے قانونی اور اخلاقی پہلو
مہمان کالم
مہمان کالم
حقیقت پسندی اور بدلتی لہریں
مہمان کالم
مہمان کالم