نئے چیلنجز اورپولیس شہدائ۔۔

گزشتہ روز نامعلوم حملہ آوروں نے سنٹرل جیل پشاور کے بالکل سامنے کلاشنکوف سے فائرنگ کرکے جیل کے ڈیوٹی انچارج اور سی ٹی ڈی کے آفیسر انسپکٹر خوشدل خان کو شہید جبکہ انکے گارڈ کو شدید زخمی کردیا وہ اپنی گاڑی میں بیٹھے تھے کہ ان کو نشانہ بنایا گیا ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تاہم پولیس اور دوسرے ادارے انکی گرفتاری کیلئے متحرک ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ قاتل جلد گرفتار ہونگے گرفتاری کے بعد ہی پتہ چل سکے گا کہ اس حملے کے محرکات کیا تھے تاہم تجزیہ کار اس واقعے کو دہشت گردی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ پشاور کو ایک بار پھر بوجوہ نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے سیاسی کارکنوں‘ اعلیٰ افسران‘ تاجروں اور عوام کی طرح خیبرپختونخوا پولیس نے بھی سال2007ءکے بعد امن کی بحالی اور خیام میں نہ صرف بنیادی کردار ادا کیا ہے بلکہ بے پناہ قربانیاں بھی دی ہیں اعدادوشمار کے مطابق2007 کے بعد اب تک کے پی پولس کے ستر افسران سمیت تقریباً ساڑھے سترہ سو(1750) جوانوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانیں قربان کی ہیں جو کہ صوبے کا ایک قابل فخر ریکارڈ ہے 2008ءسے لیکر2013ءکے درمیان حکومت نے جہاں اس فورس کو جدید بنیادوں پرٹریننگ دی وہاں اسکی تنخواہوں‘ مراعات اور سہولیات میں بھی بے پناہ اضافہ کیا اسی کے نتیجے میں اس فورس کو ملک کی بہترین فورس کہا جاتا ہے کے پی پولیس کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسکے اکثر افسران انتہائی کوالیفائیڈ اورتعلیم یافتہ ہیں اور غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ اس فورس میں ادارہ جاتی احتساب کا عمل کسی بھی دوسرے ادارے سے زیادہ ہے سابق آئی جیز ناصر خان درانی اور صلاح الدین محسود کے ادوار میں ادارہ جاتی ڈسپلن اور اصلاحات پر بھرپور توجہ دی گئی تاہم موجودہ آئی جی ثناءاللہ عباسی اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی حساس اور تیز ثابت ہوئے ہیں اور انکے دور ملازمت میں فرائض میں غفلت برتنے والے سینکڑوں اہلکاروں اور درجنوں افسران کے خلاف سخت ترین کاروائیاں کی جاچکی ہیں اس ضمن میں عامر تہکالے اور کرک میں ہونیوالے واقعے کے بعد ہونیوالی تادیبی کاروائیوں کی مثال دی جاسکتی ہے جس کے دوران چند ہی دنوں کے اندر پولیس افسران اور اہلکاروں کہ نہ صرف کرنے سمیت دوسرے اقدامات کاسامنا کرنا پڑا اس وقت ضم شدہ اضلاع میں پولیس کو فعال بنانے پر بھرپور توجہ دی جارہی ہے اوربعض علاقے ایسے ہیں جہاں مرد اہلکاروں کے علاوہ خواتین بھی فرائض سرانجام دینے میں مصروف ہیں سیکورٹی فورسز کی طرح صوبے کے امن میں پولیس کا کردار بہت اہم رہاہے اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کو تمام مراعات اور سہولیات دینے کے علاوہ حالیہ لہر کے تناظر میں تحفظ بھی فراہم کیا جائے مشاہدے میں آیا ہے کہ ماضی قریب کے مقابلے میں گزشتہ چند برسوں کے دوران پولیس فورس اور اسکے بعض دوسرے اہم اداروں کی سہولیات اور سرپرستی پر بوجوہ زیادہ توجہ نہیں دی جارہی پشاور سمیت صوبے کے متعدد شہروں کے اہم پولیس سٹیشنز نہ صرف بنیادی سہولیات بلکہ نئی عمارتوں کی ضرورت سے بھی محروم ہے غربی تھانہ اسکی بڑی مثال ہے جو کہ صدر جیسے علاقے میں واقع ہونے کے باوجود جدید عمارت سے بھی محروم ہے اکثر تھانوں میں حوالات کی حالت انتہائی ناگفتہ بہہ ہے کہ وہاں قیدیوں یا حوالاتیوں کو رکھنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے گشت کیلئے مختص گاڑیوں کے تیل کا خرچہ بھی اکثر تھانے پورا کرتے ہیں آبادی مسائل‘ کیسز اور جرائم کی شرح تیزی سے بڑھتی جارہی ہے مگر فورس کی تعداد اور سہولیات کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے پولیس کی کارکردگی اور رویے سے متعلق شکایات اور واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ان مسائل اور ان سے پیدا ہونیوالی شکایات‘ مشکلات کا صوبائی حکومت کو فوری طور پر نوٹس لینا چاہئے تاکہ پولیس کی ساکھ کے علاوہ عوام کے اعتماد کو بھی بحال کیا جا سکے سال2020 کے دوران صوبائی کابینہ نے پشاور کی سیکورٹی کو جدید اور محفوظ بنانے کیلئے پنجاب کی طرز پر پشاور سیف سٹی پراجیکٹ کی نہ صرف یہ کہ منظوری دی تھی بلکہ اسکے لئے اربوں کے بجٹ کا باضابطہ اعلان بھی کیا گیا تھا اس اہم پراجیکٹ کی ذمہ داری ایک باصلاحیت ڈی آئی جی اکبر ناصر خان پر ڈالی گئی تھی جن کے کریڈٹ پر پنجاب سیف سٹیشنز کا قیام اور کامیابی بھی ہے تاہم یہ منصوبہ اسکے باوجود تعطل یا تاخیر کا شکارہے کہ پشاور کو کسی بھی دوسرے شہر کے مقابلے میں اس منصوبے کی اشد ضرورت ہے وزیراعلیٰ چیف سیکرٹری اور آئی جی کو چاہئے کہ اگر اس منصوبے کے باقاعدہ آغاز میں کوئی مالی یا انتظامی رکاوٹ حائل ہے تو اسے فوری طورپر دور کرنے کی عملی کوشش کی جائے جرائم اورسیکورٹی کے جدید چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اب روایتی اور فرسودہ طریقوں سے کام نہیں لیا جاسکتا اگر پشاور سیف سٹی پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا تو اس سے نہ صرف شہر محفوظ ہوگا بلکہ عام پولیس پر کام کا دباﺅ بھی کم ہوگا اور دیگر اداروں کو بھی اس سے بہت فائدہ ہوگا اس وقت بھی شہر کے اہم اورحساس علاقے فوج کی سیکورٹی کے محتاج ہیں اس فورس پر بھی کام کا دباﺅ کم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔