ہم وہاں ہیں۔۔۔۔

گردش نان جویں کا رخ کوئی نہیں موڑ سکتا‘ ہم عموماً روزمرہ کی گفتگو میں لفظ دانہ پانی کا استعمال کرتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ دانہ پانی پر کسی کو اختیار نہیں اور اسی نان جویں کی عملی حکایت ہمیں بھی درپیش ہے ہم گزشتہ چالیس سال سے یورپ‘ افریقہ‘ مڈل ایسٹ اور امریکہ میں تلاش نان جویں کی تلاش میں سرگرداں رہے بالآخر ریٹائرمنٹ کا وقت آگیا ان دنوں ہم کیلی فورنیا میں مقیم تھے تلاش بسیار کے بعد نیومیکسیکو کو گھر جانا‘ مکان بنایا اورقریب قریب بیس سال کے قریب اس گھر میں مقیم رہے اچانک ایک دن میری بیٹی مریم کا فون آیا یہ فون حسب معمول فون نہ تھا۔فوراً ہی کہنے لگی‘یہ ضروری کال ہے میرے شوہر بھی لائن پر ہیں ہم نے صلاح مشورے کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ اب آپ دونوں ہمارے قریب آکر رہیں اور ہمیں بھی خدمت کاموقع دیں آپ سے درخواست ہے کہ نیو میکسیکو والا مکان بیچ دیں اور ٹیکساس ہمارے گھر کے قریب مکان خرید لیں ٹیکساس میں آجائیں اور ہمارے قریب مرضی کا مکان خریدیں اور ہمیں خدمت کاموقع دیں ہم آپ کے منتظر ہیں ہم دونوں اندیشہ ہائے دور دراز ہی ڈوب گئے ہم نے نظر اٹھا کر افق کی طرف دیکھا اور ہمیں اپنا دانہ پانی ہجرت کرتے دکھائی دینے لگا دل نے کہا یہ نئی ہجرت یقینا نئی نہ تھی دوران ملازمت ہم بار بار اس سے گزر چکے تھے مریم نے حال ہی میں جاشوا میں فارم ہاﺅس خریدا تھا اور اپنے گھوڑوں‘ مرغیوں اور گنی کے ساتھ شانتی سے رہ رہی ہے اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ اور ڈاکٹر صاحب ہمارے لئے مناسب مکان دھونڈ رہے ہیں اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ جاشوا میں عظیم الشان یونیورسٹی کے ٹاور بلند ہو رہے ہیں جو ان کے گھر سے صرف پندرہ بیس منٹ کے فاصلے پر ہے جو اس کے شوہر کےلئے بہت مناسب ہے جہاں وہ پڑھاتے ہیں اور مریم کی کمپنی بھی صرف بیس منٹ کے فاصلے پر ہے ہم دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے اندیشہ¿ ہائے دور دراز ہی ڈوبے ہوئے تھے ہجرت کا تصور خوش آ ئند صرف اس لئے تھا کہ مریم نظروں کے سامنے رہے گی لیکن جاشوا ایک معمہ بن کر آنکھوں کے سامنے رقصاں رہا ہم نے جاشوا کا نام تک نہ سن رکھا تھا ہم نے نیو میکسیکو والے مکان کو مارکیٹ میں ڈالا اور دمادم پیش کش آنے لگیں سامان باندھا گیا اور ہماری ہجرت کے زمانے نزدیک تر ہونے لگے
حریفوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بے رحم کہ رونے کے بہانے مانگے
جاشوا(ٹیکساس) ایک شاداب وادی میں مقیم ہے یہاں کچھ نہیں سوائے مویشوں کے قدیم آبادی کے بیشتر مکانات پرانی وضع کے ہیں اور مکانات کم از کم 22 ایکڑ پر مشتمل ہیں ان مکانات میں اضافہ کرنا یا سب ڈویژن کرنا ممنوع ہے حکومت وقت پرانی چاشنی قائم رکھنے کی سعی کر رہی ہے یہ مکانات خاندانوں کی ملکیت جانے جاتے ہیں آبادی زیادہ تر ریٹائر لوگوں کی ہے ان کے چہروں سے عیاں ہے کہ انہوں نے زندگی بھر بھرپور کام کیا ہے بچوں کو سکول اورکالجوں میں تعلیم دی اور اب اپنے بچوں اور ان کے خاندان کے انتظار میں زندہ ہیں جب بچے گھر آتے ہیں تو ان کیلئے کیسا تہوار کا سماں ہوتا ہے ‘ باربار پوتوں پوتیوں کو بھینچ بھینچ کرگلے لگاتے ہیں اور جب وہ چلے جاتے ہیں تو ان کیلئے جاشوا خامشی میں ڈوب جاتا ہے پھر حسب معمول بوڑھا اور بوڑھی شام ڈھلے کافی کے مگس لئے اپنی پورچ میں آکر بیٹھ جاتے ہیں اور ہر گزرتی کار کو ہاتھ لہرا کر خدا حافظ کہتے ہیں اور دیر تک ان کے چہروں پرمسکراہٹ رینگتی رہتی ہے‘ یوم تشکر اور کرسمس پران کے بچے ضرور آتے ہیں اور بوڑھا اور بوڑھی پرانی سامان آرائش اور سانتا کلاز سے گھر کی آرائش کرتے ہیں اور یوں جاشوا دھیرے دھیرے سنور جاتا ہے اسی علاقے میں تین ایکڑ پر کئی جائیداد کا مالک جارج ہے اس کی بیوی فوت ہوچکی ہے اور بچے کب تک جاچکے ہیں اس کے پاس نہ گھوڑے ہیں اور نہ دوسرے مویشی‘ جو کسی زمانے میںشکاری تھا وہ اپنی پرانی بندوقیںپورچ میں بیٹھ کر صاف کرتارہتا ہے اور انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہے اسی علاقے میں چند گھر چھوڑ کر ایک خاتون رہتی ہے جو جارج پر مہربان ہے وہ کبھی کھانے کبھی سبزیوں کی ٹوکری لے کر آجاتی ہے اور جارج کو سمجھاتی ہے کہ اس کی اپنی مرغیوں کے انڈے ہیں اور یہ سبزیاں اس نے خوداگائی ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتی ہے کہ اس نے سبزیاں پکانے کی ترکیب بھی ٹوکری میں لکھ کر رکھی ہوتی ہیں جارج کھل مہربانی سے اس کا شکریہ ادا کرتا ہے اور جب وہ خاتون اس کی پورچ کی سیڑھیوں سے اترتی ہے تو لگتا ہے کہ جیسے وہ گنگنا رہی ہوںکیسے سمجھاﺅں‘ بڑا نا سمجھ ہے‘ کیسے سمجھاﺅںجاشوا کے باسی بڑے محب الوطن لوگ ہیں۔