ناقابل فراموش۔۔۔۔۔

 معروف صحافی رضا علی عابدی سندھ کے دورے سے متعلق لکھتے ہیں کہ لاڑکانہ میں اس روز اچھی خاصی سردی تھی شام کو جی گھبرایا تو میں بازار میں گھومنے چلا گیا وہاں چکن کارن سوپ فروخت ہورہا تھا جس سے اٹھتی ہوئی بھاپ بھلی لگی اور میں نے ڈٹ کرایک پیالہ پیا قریب ہی جاڑوں کے پھلوں کا تازہ عرق نکالا جارہا تھا میں نے وہ بھی پی لیا اور ابھی وہ ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ مجھے اندازہ ہوگیا کہ پھلوں کے ساتھ انفلوائنزا کے جراثیم بھی کچلے جارہے ہیں حلق میں  چھوٹا سا تیر پیوست ہوتا صاف محسوس ہوا مگر مجھے یہ خیال ستائے جارہا تھا کہ یہاں کوئی میرا میزبان نہیں میں رات کہاں گزاروں گا اس دوران مجھے حکومت کا مہمان خانہ مل گیا جس کے نگراں نے مجھے اتنی رعایت سے نوازا کہ گیسٹ ہاؤس کا خصوصی مہمانوں کا کمرہ میرے لئے کھول دیا‘ البتہ خبردار کردیا کہ اگر رات ہونے سے پہلے کوئی سرکاری مہمان آگیا تو آپ کو کمرہ خالی کرنا ہوگا ابھی میں نے آزمادگی پوری طرح ظاہر بھی نہیں کی تھی کہ کوئی سرکاری افسر صاحب تشریف لے آئے اور مجھے کمرے سے جاتے ہوئے یوں دیکھا جیسے میں نے کوئی قصور کیا ہو‘وہاں میری ملاقات کراچی کے ایک چھوٹے سے اخبار کے اتنے ہی چھوٹے سے رپورٹر سے ہوگئی جو کوٹری جیسے چھوٹے سے قصبے سے خبریں بھیجنے کا فرض سرانجام دیتا تھا مگر صاحب! رپورٹر صاحب نے مجھ سے پہلی بات یہ پوچھی کہ رات کو آپ کہاں قیام کرینگے میں نے سرکاری مہمان خانے سے بے دخلی کی کہانی سنائی تو اس نے حیرت سے مجھے دیکھا قریب ہی ایک سرکاری اہلکار ہاتھ باندھے صحافی کی خدمت میں کھڑا تھا صحافی نے اسے قریب بلا کرکہا ’عابدی صاحب بھی وہاں پہاڑی کی چوٹی پر ریسٹ ہاؤس میں قیام کریں گے سارا انتظام صحیح ہونا چاہیے اہلکار لپک کر کہیں چلا گیا ذرا دیر میں ایک کار ہمیں لینے آگئی اور ہم دونوں کو نہایت دلکش پہاڑی کی چوٹی پر بنے ہوئے ریسٹ ہاؤس میں لے گئی‘ریسٹ ہاؤس میں مجھے سونے کیلئے جو بستر دیاگیا اس پر بھٹو صاحب سوچکے تھے ابھی میں نامہ نگار کے اثر ورسوخ پر حیرت زدہ تھا کہ پولیس کی کچھ شاندار گاڑیاں آئیں جس میں مقامی حکام بیٹھے تھے وہ آتے ہی بولے ’عابدی صاحب‘ آپ کو چاہیے تھا کہ ہمیں اپنے آنے کی خبر کرتے یہاں سکیورٹی کے مسائل ہیں‘میں دیر تک سوچتا رہا کہ کس کا اثر ورسوخ زیادہ ہے میرا یا اس غریب کوٹری کے ضلعی نامہ نگار کا‘نیچے شہر میں رات بھر جشن کا سماں رہا وہ وہاں ہر رات کا معمول تھا میں نے سونے سے پہلے اپنے تکیے کو سونگھا میرا خیال تھا اس میں بھٹو صاحب کی خوشبوہوگی صبح ہوئی تو مجھے محسوس ہوا کہ انفلوائنزا کا جو عرق میں غٹاغٹ پی گیا تھا وہ اب سراٹھا رہا ہے۔رضا علی عابدی اپنے ایک سفر نامے میں سکردو سے متعلق لکھتے ہیں کہ جرات مند ہوا باز طیارے کوسکردو لے گیا‘اس روز شہر سکردو یوں لگا جیسے ایک کشادہ پیالے کی تہہ میں کوئی موتی پڑا ہو‘ لداخ کے بعد سکردو آکر یوں لگا جیسے کسی پرانے زمانے کے انسان کواٹھا کر جدید زمانے میں اتار دیا جائے سکردودنیا سے الگ تھلگ او ر کٹا ہوا علاقہ تھا اب نہیں ہے‘ کراچی کی بندرگاہ سے بار بردار ٹرک چل کرسکردو پہنچ جاتے ہیں اوریہ شاندار سڑک سال کے بارہ مہینے کھلی رہتی ہے۔ سڑک کے ساتھ زمانے کی زیادہ تر نعمتیں اس علاقے میں پہنچنے لگی ہیں اوریہاں پیداہونیوالی بے مثال خوبانی جو کثرت سے پیداہوتی تھی اور درختوں سے گر کر سڑ جاتی تھی‘ اب خشک کرکے دنیا بھرمیں پہنچائی جا رہی ہے‘اسی طرح جدید تعلیم بڑے سلیقے سے اس سر زمین پر آ گئی ہے میں نے اپنے پروگرام کیلئے بہت سے انٹرویو ریکارڈکئے اوران سے بھی زیادہ محبت سمیٹی‘مگر جو انٹریو مجھے یاد رہے گا وہ ڈاکٹریاسمین ممتاز کا تھا‘اصل میں تو وہ علاقے کے ڈپٹی کمشنر کی اہلیہ تھیں مگر کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج میں تعلیم پاچکی تھیں اس علاقے میں آئیں تو دیکھا کہ پردہ دار اورباحیا خواتین کومر جانا منظور ہے مگر مرد ڈاکٹر سے علاج کرانا گوارہ نہیں‘اوپر سے غضب یہ کہ سردی کی وجہ سے بیمار رہتی ہیں اورگھر گر ہستی کی ذمہ داریاں اٹھاتے اٹھاتے ان کے پھیپھڑے چھلنی ہو جاتے ہیں‘ ڈاکٹریاسمین ممتاز نے انکا علاج شروع کیا تو مریض خواتین کی قطاریں لگ گئیں‘ میں نے کسی ڈاکٹر کو خلق خدا کی اتنی خدمت کرتے ابھی تک نہیں دیکھا تھا انہوں نے علاقے کی عورتوں کے بارے میں آنکھیں کھول دینے والی تفصیلات بتائیں۔