مشینوں کیساتھ کھیل 

 ہم گھر میں کل تین بڑے تھے‘ ایک دادا‘ ایک دادی اور ایک بہو اور ارسلا‘  ارسلا بڑی بیمار تھی۔ دو برس کی عمر کی ایک نہایت پیاری‘ خوبصورت‘ سنہرے بالوں والی بچی‘ اسے شدید بخار تھا اور موسم یہی سردیوں کا تھا‘بخار اترنے کا نام نہیں لیتا تھا اور ڈاکٹروں نے بڑی کوشش کی‘بڑی اینٹی بائیوٹیک دی تھیں لیکن وہ ان کے قابو میں نہیں آرہی تھی۔ ارسلا بڑی بے چین تھی‘ اس کے دل کی دھڑکن بھی بڑی تیز تھی‘ وہ صرف دادا کے ساتھ چمٹ کر ہی تھوڑی دیر آرام کر سکتی تھی‘ میں اس وقت جوان تھا‘ ابھی ساٹھ برس عمر کا نہیں ہوا تھا‘ ابھی پانچ ماہ کم تھے اور میں ”تگڑا‘‘تھا۔ارسلا کا سب سے بڑاتقاضا یہ تھا کہ وہ میرے سینے کے ساتھ لگ گئی‘ جس طرح چٹان پر کوئی مینڈک چپکا ہوتا ہے‘میں پیچھے کی طرف جس قدر بھی زاویہ بناسکوں‘ تو ٹھیک‘ لیکن اگر سیدھا کھڑا ہوتا یا عموداً تو پھر وہ رونے لگتی تھی۔ اتنی دیر تک پیچھے کو جھک کے کھڑے رہنا کافی مشکل تھا لیکن اس کی خوشنودی اور آرام مقصود تھا‘ اتنی سردی میں اس کا پسینہ اس کی ناک سے اس کے ماتھے سے ٹپک رہا تھا میرے نیلے کرتے پر  بڑے بڑے ”چٹاک‘‘پڑ رہے تھے اور مجھے پتہ چل رہا تھا کہ یہ میرے کرتے کا رنگ کچا ہے‘جب بھی قطرہ گرتا مجھے اور تکلیف ہوتی اور دوسرے اپنے کرتے کی بھی کہ اس کا رنگ ٹھیک نہیں ہے‘ اس کیفیت سے ہم گزرر ہے تھے رات کے وقت میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں ایک ایسی کرسی پر بیٹھتا ہوں جس کی ”ڈھو“ (سہارا) ذرا سلانٹ ہو تو ارسلا اسی طرح میرے سینے کے اوپر آرام سے لیٹی رہے‘ کیونکہ وہ اپنی ماں پراعتماد کرتی تھی نہ اپنی دادی کے پاس جاتی تھی‘ اپنے بستر پر نہیں لیٹتی تھی۔آپ ایسا کریں کہ میں کرسی پر بیٹھتا ہوں اور مجھے ٹی وی لگا دیں اور اس کی آواز بند کر دیں‘ تصویریں گزرتی رہیں گی میں دیکھتا رہوں گا اور میرا دل لگا رہے گا۔ میں اپنے عہد کا بڑا لائق آدمی تھا‘ لائق پڑھائی لکھائی کے اعتبار سے نہیں، میری ہابی بھی تھی کہ میں مشینوں کے ساتھ کھیل سکتا تھا اس عمر میں‘ میں اپنی گاڑی کا تیل گھر پر بدلتا۔ آپ تو تیل تبدیل کروانے جاتے ہیں‘ میں گاڑی کے نیچے لیٹ کر بڑے رینچ سے کھول کر ڈبہ رکھ کے تیل بدلی کرلیتا تھاجب میں روم میں رہتا تھا اور میں یونیورسٹی جاتا تھا تو صبح ناشتے میں ہر روز میں ایک چیز سینڈوچ لیتا تھا‘ وہ پانچ روپے کا ملتا تھا اور چائے میں اپنے کمرے میں بنا لیتا تھا۔ وہاں چائے کا رواج نہیں ہے‘ کافی پی جاتی ہے‘ میں نے محسوس کیا کہ پانچ روپے کا تو بڑا مہنگاہے‘ اس میں تھوڑا سا پنیر اور دو سلائس ہوتے ہیں اور وہاں میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی کہ جس سے میں ہر روز سستے بھاؤ ایک سینڈوچ تیار کرسکتا‘ میں نے ایک دن یوں کیا کہ وہاں سے دو سلائس لئے‘ آٹھ آنے کے دو سلائس اور آٹھ آنے ہی کا تقریباً پنیر کا ٹکڑا بھی لے لیا اور اوپر کمرے میں آگیا‘ میں ٹھنڈا کھانے کا عادی نہیں تھا گرم کھانے کی عادت پڑی ہوئی تھی‘ میں نے کہا کہ اسے گرم ہونا چاہئے‘ میں نے استری گرم کی اور اسے سلائیزکے اوپر رکھا‘جس سے بہترین چیز سینڈوچ تیار ہوگیا اور اب مجھے وہ ایک روپے کاپڑنے لگا‘ آپ کو بھی بتا دوں کہ استری سے پنیر سینڈوچ بڑا اچھا بن جاتاہے۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)