ٹیلی فون اور بجٹ۔۔۔۔۔۔۔

مظفر آباد آکر امن و امان کی فضا میں سانس لیتے ہی ہمیں پہلی بار آزاد کشمیر میں ٹیلی فون کی ضرورت کا احساس دامن گیر ہوا میں نے مری آکر مقامی پوسٹ آفس سے ٹرنک کال کرکے سردار عبدالرب نشتر کی خدمت میں آزاد کشمیر کی اس ضرورت کے متعلق گزارش کی تو چند روز بعد وہ مرکزی محکمہ ٹیلی فون کے چند بڑے افسران کو لے کر آئے اور آزاد کشمیر کے دوسرے اہم مقامات پر بھی ٹیلی فون کا نہایت اچھا نظام رائج کرنے کے خصوصی احکام جاری کر دیئے نشتر صاحب پاکستان کے پہلے مرکزی وزیر تھے جنہوں نے آزاد کشمیر میں قدم رنجہ فرمایا تھا‘ سیکرٹری جنرل کے طور پر میں نے آزاد کشمیر کا پہلا بجٹ بنایا آمدنی کا تخمینہ پچاس ساٹھ ہزار روپے کے قریب تھا اور اخراجات کا اندازہ دو لاکھ روپے کے لگ بھگ تھا حکومت پاکستان سے ایک لاکھ تیس ہزار روپے کی امداد حاصل کرنے کیلئے میں اپنا بجٹ لیکر کراچی میں حکومت پاکستان کے سیکرٹری جنرل چوہدری محمد علی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پہلے تو انہوں نے مجھے اس بات پر ڈانٹا کہ میں نے اپنے عہدے کا نام چیف سیکرٹری کے بجائے سیکرٹری جنرل کیوں رکھ چھوڑا ہے؟ میں نے معافی مانگ کر گزارش کی کہ اب تو یہ غلطی ہوگئی ہے فوری طورپر کوئی تبدیلی کرنا مناسب نہیں میرے بعد بے شک اس اسامی کانام چیف سیکرٹری رکھ دیا جائے چنانچہ اب یہ عہدہ اسی نام سے موسوم ہے۔ بجٹ پر ایک سرسری سی نگاہ ڈال کر چوہدری صاحب نے کاغذوں کا پلندہ میز پر دے مارا اور کسی قدر ترشی سے بولے’ایک لاکھ تیس ہزار روپے کی رقم پاکستان کے درختوں پر نہیں اگتی‘ تمہارا فرض ہے کہ تم مقامی وسائل کو کام میں لاکر اپنے بجٹ کی ضروریات پوری کرو‘ جنگ کی وجہ سے مقامی طورپر غیر معمولی دشواریوں کا رونا رو کر میں نے مزید منت سماجت کی تو چوہدری صاحب کسی قدر پسیجے اور انہوں نے بڑی مشکل سے مبلغ نوے ہزار روپے کی امداد منظور کی۔چوہدری غلام عباس صاحب شیخ عبداللہ کی جیل سے رہا ہو کر پاکستان پہنچے تھے۔ کراچی آ کر وہ ہمارے ہاں ٹھہرے اور ٹیلی فون پر قائداعظم کو اپنی آمد کی اطلاع دی۔ قائداعظم نے انہیں اگلے روز لنچ پر مدعو کیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ اگر انہیں سواری کی ضرورت ہو تو گورنر جنرل ہاؤس کی کار انہیں لینے وقت پر آ جائے گی۔ چوہدری صاحب ہمارے ہاں کار کھڑی دیکھ چکے تھے۔ اس لئے انہوں نے عرض کیا کہ سواری کا انتظام ہے اور وہ خود ہی حاضر ہو جائیں گے۔ سواری کا جو انتظام موجود تھا‘ اس کی اصلیت سے ہم نے چوہدری صاحب کو آگاہ کیا تو وہ بولے”کوئی پروا نہیں“ ہم ایک گھنٹہ پہلے ہی گھر سے روانہ ہو جائیں گے اتفاق سے کار کا موڈ ٹھیک رہا اور ہم ساڑھے بارہ ہی گورنر جنرل ہاؤس پہنچ گئے۔ اے ڈی سی بڑا پریشان ہوا کہ چوہدری صاحب اتنی جلدی کیوں آ گئے ہیں؟ چوہدری صاحب نے اس کی ڈھارس بندھائی کہ وہ بڑی خوشی سے اے ڈی سی کے کمرہ میں بیٹھ کر آدھ گھنٹہ انتظار کر لیں گے۔انتظار کی بات نہیں سر“ اے ڈی سی نے جواب دیا“ قائداعظم کا حکم ہے کہ جب چوہدری صاحب تشریف لائیں تو وہ خود پورچ میں آ کرکار کے دروازے پر ان کا استقبال کریں گے اس لئے فی الحال آپ واپس چلے جائیں اور ٹھیک ایک بج کر پندرہ منٹ پر پورچ میں پہنچ جائیں۔ اس گفتگو کے دوران کار کا انجن بند ہو گیا تھا۔ ہم نے دھکا دے کر اسے سٹارٹ کیا اور باہر آ کر گیٹ کے قریب ہی گورنر جنرل ہاؤس کی دیوار کے ساتھ وقت گزارنے کے لئے رک گئے۔وقت ہونے پر سکیورٹی کے کچھ سپاہیوں نے بڑی خوشدلی سے کار کو دھکا لگایا اور ہم بڑے زورشور سے پھٹ پھٹ کرتے ٹھیک سوا بجے گورنر جنرل ہاؤس کی پورچ میں جا رُکے۔ عین اسی لمحے قائداعظم بھی اندر سے برآمد ہوئے۔ انہوں نے بڑی گرمجوشی سے چوہدری صاحب کے ساتھ معانقہ کیا اور انہیں بازو سے تھام کر اندر لے گئے ہم نے احتیاطاً کار کا انجن چالو رکھا۔(قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ سے اقتباس)