یونیورسٹی ملازمین کا احتجاج۔۔۔۔

خیبرپختونخوا کی مختلف یونیورسٹیوں کے ملازمین اور اساتذہ بعض حکومتی اقدامات کے ردعمل میں احتجاج پر ہیں اور انکی دو نمائندہ تنظیموں فپواسا اور پیوٹا نے گزشتہ دنوں پشاور میں اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجی مظاہرے کرکے الزام لگایا کہ اٹھارویں اور25 ویں آئینی ترامیم کے علاوہ ہائیر ایجوکیشن کے بعض اعلانات اور مراعات پر عملدرآمد نہیں ہورہا سیاسی جماعتیں بھی اس احتجاج کی کھل کر حمایت کر رہی ہیں جبکہ دوسری جانب بعض وائس چانسلرز کی برطرفی اور معطلی کے حکومتی اقدامات پر پشاور ہائیکورٹ نے بھی تشویش اور ناراضگی کا اظہار کر کے حکومت سے وضاحتیں طلب کی ہیں حکومت کا موقف ہے کہ اکثر یونیورسٹیوں میں یا تو ملازمین کی تعداد زیادہ ہے یا یہ غیر معمولی اخراجات میں ملوث ہیں جسکے باعث حکومت ان کو درکار فنڈز فراہم نہیں کرسکتی جبکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یونیورسٹیوں کو مالی بحران سے زیادہ تنظیمی بدانتظامیوں کا سامنا ہے ذرائع کے مطابق پختونخوا میں پبلک سیکٹر کی31 جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کی 8یونیورسٹیاں موجود ہیں ان میں سے زیادہ اے این پی کے دور حکومت میں قائم ہوئی ہیں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مالی اور انتظامی بحرانوں سے قطع نظر ان یونیورسٹیوں کے قیام سے اعلیٰ تعلیم کی شرح اور سٹوڈنٹس کی تعداد اور سہولیات میں اضافہ ہوا۔فپواسا کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر صادق علی کے مطابق ہزاروں اساتذہ اور دیگر ملازمین اپنے چار مطالبات منوانے کیلئے احتجاج کا اپناآئینی حق استعمال کر رہے ہیں کیونکہ صوبائی حکومت یونیورسٹیوں کے معاملات میں دلچسپی نہیں لے رہی اور اب ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی بجائے کٹوتی کا فیصلہ کرچکی ہے انہوں نے کہاکہ یونیورسٹیوں کو دنیا اور دوسرے صوبوں کی طرح خود مختار ہونا چاہئے اور انکی ضروریات اور اخراجات کے مسئلے کو حل کرنا ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے انکے مطابق ہائیر ایجوکیشن کمیشن نہ صرف ملازمین کو مسلسل تنگ کرنے اور مراعات کم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے بلکہ یونیورسٹیوں سے مسلسل مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے اخراجات پوری کرنے کیلئے سٹوڈنٹس کی فیسوں میں اضافہ کریں حالانکہ صوبے میں فیسوں کی شرح دوسرے صوبوں سے پہلے ہی سے کافی زیادہ ہے ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر خادم حسین کے مطابق اپنے عوام کو سیکورٹی تعلیم اور صحت فراہم کرنا ریاست کی آئینی ذمہ داریوں میں آتا ہے‘انکے مطابق غیر اعلانیہ طورپر ایک منصوبے کے تحت کوشش کی جارہی ہے کہ نئی نسل پر حصول تعلیم اور روزگار کے دروازے بند کئے جائیں پیوٹا کے مطابق صدر ڈاکٹر جمیل چترالی کا موقف ہے کہ نظام تعلیم کو پیچیدہ‘ مشکل اور مہنگا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اساتذہ اور سٹوڈنٹس کی ضروریات اور مسائل کا کوئی نوٹس نہیں لیا جارہا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ صوبے کے متعدد اہم یونیورسٹیوں کو کئی برسوں سے مالی بحرانوں اور درکار فنڈز کی عدم فراہمی کا سامنا ہے انہوں نے کہاکہ ملازمین کے پاس احتجاج کے بغیر دوسرا راستہ باقی نہیں رہا ہے۔ دوسری طرف معاون خصوصی برائے اعلیٰ تعلیم اور صوبائی حکومت کے ترجمان کامران بنگش نے  بتایا کہ موجودہ حکومت ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کی ترقی میں بہت سنجیدہ ہے اور پچھلے بجٹ میں تعلیم کے فروغ کیلئے ریکارڈ بجٹ رکھا گیا تھا انکے مطابق حال ہی میں سینکڑوں نئی ملازمتوں کی فراہمی کا اعلان کیا گیا ہے جس کیلئے ایک شفاف طریقہ کار وضع کیا گیا ہے تاہم بدانتظامی‘ میرٹ کے خلاف بھرتیوں اور غیر ضروری اخراجات کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور یونیورسٹیوں کو اپنی کارکردگی کا معیار بھی بہتر بنانا ہوگا انکے مطابق اساتذہ اگر احتجاج اور غیر معمولی مراعات کی بجائے اپنی کارکردگی پر توجہ دیں تو زیادہ بہتر ہوگا اسباب اور عوامل جو بھی ہو تلخ حقیقت یہ ہے کہ جنگ زدہ صوبے کے سٹوڈنٹس کو اعلیٰ اور سستی تعلیم اور روزگار کی فراہمی ریاست کی ذمہ داریوں میں آتا ہے اور حکومت کو غیر معمولی اقدامات میں کسی قسم کی تاخیر نہیں کرنی چاہئے دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہائیرایجوکیشن کمیشن کا طریقہ کار اور رویہ ٹھیک نہیں اور ملازمین کو بعض اقدامات پر تحفظات لاحق ہیں تو صوبائی حکومت کو چاہئے کہ فپواسا اور پیوٹا کے علاوہ سٹوڈنٹس کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد یا جرگے کی سفارشات اور تجاویز کی روشنی میں ایسا لائحہ عمل اپنایا جائے جسکے ذریعے ان مسائل اور بحرانوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔