دو جون کی شام تک اسرائیل میں یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ وزیر اعظم بنجا مین نتن یاہو کے مخالفین انہیں اقتدار سے ہٹانے کیلئے ایک نیا سیاسی اتحاد بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں تین جون کے اخبارات نے یہ انکشاف کیا کہ اسرائیلی پارلیمان کہ جسے Knesset کہا جاتا ہے کی آٹھ جماعتیں ملکر نیا حکومتی اتحاد بنائیں گی اس بندوبست کے سربراہ صرف سات سیٹیں جیتنے والی جماعت کے لیڈر Naftali Bennett ہوں گے وزیر اعظم نتن یاہو کی لیکوڈ جماعت نے 120 کی پارلیمان میں بتیس سیٹیں حاصل کی ہیں مگر وہ ایک ماہ کی تگ و دو کے باوجود حکومت بنانے کیلئے مطلوبہ 61 نمائندے اکٹھے نہ کر سکے اسکے بعد صدر Reuven Rivlin نے دوسری بڑی جماعت Yesh Atid جس نے ستارہ سیٹیں حاصل کی ہیں کے سربراہ Yair Lapid کو تیس دنوں کے اندر حکومت بنانے کی دعوت دی وہ اس ڈیڈ لائن سے ایک دن قبل بمشکل تمام آٹھ سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کر کے نئی حکومت کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوئے اس ڈھیلے ڈھالے نئے حکومتی بندوبست کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کے پہلے دو سال Naftali Bennett وزیر اعظم ہوں گے اور اسکے بعد کے دو سال Yair Lapid وزارت عظمیٰ سنبھالیں گے اس بھان متی کے کنبے میں اسرائیل کے مسلمانوں کی چار سیٹیں جیتنے والی جماعت ”رام“ بھی شامل ہے اسکے سربراہ منصور عباس اپنے اٹھارہ لاکھ مسلمان اسرائیلی شہریوں کیلئے کچھ مراعات لینے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں اسکا فیصلہ بعد میں ہو گا مگر یہ طے ہے کہ انکی نئے اتحاد سے علیحدگی نئی حکومت کے اختتام کا باعث بن جائیگی۔نتین یاہو کا بارہ برس تک وزیر اعظم رہنے کے بعد اقتدار سے ہٹا دیاجانا پوری مغربی دنیا کیلئے ایک حیران کن خبر تھی لیکن یروشلم سے بتیس میل کے فاصلے پر واقع غزہ کے فلسطینیوں کیلئے نتن یاہو کی سبکدوشی کوئی غیر معمولی بات نہ تھی تین جون کی صبح جب غزہ کے لوگوں نے سب سے زیادہ بکنے والا اخبار ”القدس“ پڑھا تو اسمیں اسرائیل کی نئی حکومت کی خبر ساتویں صفحے پر چھپی تھی فلسطینی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل کا وزیر اعظم جو بھی ہو اس سے انکے حالات میں کوئی فرق نہیں پڑے گا انہوں نے اپنے حقوق خود ہی حاصل کرنے ہیں اور اس کیلئے انہیں ایک طویل جہدو جہد کرنا ہوگی وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نیفتلی بینیٹ اپنے پیشرو نتین یاہو سے اسلئے زیادہ انتہا پسند ہے کہ وہ مغربی کنارے میں آباد یہودی آباد کاروں کے ووٹوں سے منتخب ہوا ہے بعض مبصرین کے مطابق بینٹ اسلئے اپنے انتہا پسند نظریات کو عملی جامہ نہ پہنا سکے گا کہ نیا حکومتی اتحاد فار رائٹ سے لیکر فار لیفٹ تک کی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے اسکی کامیابی کی شرط یہ ہے کہ اس میں شامل سب جماعتوں نے پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے یہ انوکھا سیاسی اکٹھ جب تک قائم رہتا ہے یہ فلسطین کے دوریاستی حل جیسے متنازعہ مسئلے کی طرف پیش رفت کرنے کی کوشش نہیں کریگا۔ صیہونی ریاست کے پرانے حکمرانوں نے بڑی سوچ سمجھ کے بعد فلسطینیوں کو تین حصوں میں منقسم کر کے انکے اتحاد کو منتشر کر دیا ہے مغربی کنارے پر امریکی حمایت اور امداد سے چلنے والی فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس ہیں وہ مئی 2005 سے فلسطین کی برائے نام ریاست کہ جسے فلسطین نیشنل اتھارٹی کہا جاتا ہے کے صدر ہیں رواں سال مئی کے مہینے میں پچاسی سالہ محمود عباس نے سولہ سال کے بعد نئے انتخابات کرانے تھے مگر وہ فلسطینی نوجوانوں میں اپنی کم ہوتی ہوئی مقبولیت کیوجہ سے یہ رسک نہ لے سکے اور یوں انہوں نے نئی نسل کے ایک نئی اور فعال قیادت کو منتخب کرنے والے جوش و جذبے کو کچل دیا اسرائیل سے بتیس میل کے فاصلے پر بحیرہ روم کے کنارے پر آباد فلسطینیوں کے دوسرے بڑے ٹھکانے غزہ کی ساحلی پٹی پر گذشتہ مہینے کی گیارہ روزہ اسرائیل حماس جنگ میں ڈھائی سو سے زیادہ فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے مگر حماس نے اسرائیل پر چار ہزار راکٹ برسا کر یہ ثابت کر دیا کہ فلسطینیوں کی تحریک آزادی آج بھی زندہ ہے اور انکی جہدو جہد اپنے حقوق حاصل کرنے تک جاری رہیگی فلسطینی مسلمانوں کا تیسرا حصہ اسرائیل کے مختلف شہروں میں آباد ہے مئی کے مہینے انہی اسرائیلی مسلمانوں کے مسجد اقصیٰ میں بھرپور احتجاج کے بعد اسرائیل حماس جنگ شروع ہوئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا سرزمین فلسطین پر لڑی جانیوالی یہ جنگ اسلئے پچھلی جنگوں سے زیادہ مختلف تھی کہ یہ امریکہ اور یورپ کے کئی بڑے شہروں میں لاکھوں مظاہرین کو سڑکوں پر لے آئی امریکی نیوز نیٹ ورک جلی سرخیوں کیساتھ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ میں ہونیوالی تباہی کی خبریں گیارہ روز تک مسلسل شائع کرتے رہے امریکی ایوان نمائندگان میں پہلی مرتبہ فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں آواز بلند کی گئی مشی گن اور منی سوٹاکی منتخب اراکین کانگرس رشیدہ طلائب اور الہان عمر نے ایوان زیریں میں تقاریر کرنے کے علاوہ صدر بائیڈن سے ملاقات کر کے فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں پیشرفت کرنے کا مطالبہ کیا ورمانٹ کے سینیٹر اور سابقہ صدارتی امیدوار برنی سینڈرز نے پندرہ مئی کے نیو یارک ٹائمز میں We need a new Mideast approach کے عنوان سے شائع ہونیوالے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ جب کبھی بھی اسرائیل غزہ پر فضائی حملے کرتا ہے تو امریکی صدر یہ کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے سینیٹر سینڈرز جو خود بھی یہودی ہیں نے لکھا ہے کہ کئی سالوں سے مسلسل استعمال ہونیوالا یہ جملہ اسلئے بے معنی ہو چکا ہے کہ دنیا میں ہر ریاست کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے برنی سینڈرز نے لکھا ہے کہ ہم ہرسال اسرائیل کو چار ارب ڈالر کی امداد دینے کے باوجود نتن یاہو کے دفاع میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں اس میڈیا مہم کے علاوہ امریکہ میں چند سال پہلے فلسطینی اور یہودی تنظیموں نے ALLMEP کے نام سے ایک جماعت بنائی یہ Alliance For Middle East Peace کا مخفف ہے یہ دنیا بھر میں فلسطینیوں کو گراس روٹ لیول پر متحد کرنیکا ایک ایسا نیٹ ورک ہے جسمیں ایک سو پچاس سے زیادہ تنظیمیں شامل ہیں وسط مئی میں ایک ہی دن فلسطین‘ یورپ اور امریکہ میں لاکھوں مظاہرین کو سڑکوں پر لا نے کا کارنامہ اسی جماعت نے سر انجام دیا آج سے ستر برس پہلے شروع ہونیوالی آزادی فلسطین کی جہدو جہد نے اب اس تنازعے کے اصل ذمے دار امریکہ میں طاقت کے ایوانوں پر دستک دینا شروع کر دی ہے اسرائیل کا وزیر اعظم نیفتلی بینٹ ہو یا نتین یاہو وہ اس تاریخی تنازعے سے بھاگ تو سکتے ہیں چھپ نہیں سکتے جلد یا بدیر انہیں یا تو فلسطین کو آزاد کرنا ہو گا یا فلسطینیوں کو اسرائیل میں یہودیوں کے برابر حقوق دینا ہوں گے۔
اشتہار
مقبول خبریں
امریکی معاشرے کا اضطراب
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی