الزبتھ ثانی

برطانیہ کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے 70سال تک تخت نشین رہنے والی ملکہ الزبتھ ثانی نے 96 سال کی عمر میں 8 ستمبر کوسکاٹ لینڈ میں ان کی پسندیدہ شاہی قیام گاہ بالمورل کاسل میں آخری سانس لی۔ 1926 میں بادشاہ ششم کے ہاں پیدا ہونے والی یہ بچی 26 سال کی عمر میں 1952 میں ملکہ بنی جس کی تاج پوشی سترہ مہینے بعد 2 جون 1953 کو ہوئی۔ جب وہ ملکہ بنی توسلطنت برطانیہ جو اپنی عروج کے دنوں میں  ساڑھے 35 ملین مربع کلومیٹر پر پھیلی تھی سمٹنے لگی تھیں اور زیر تسلط اقوام غلامی کے طوق اتار پھینکنے لگے تھے۔ ملکہ کی وفات پر یہ سلطنت انگلستان،  سکاٹ لینڈ،  ویلز۔ شمالی ائرلینڈ اور کئی سمندر پار علاقوں پر مشتمل چند لاکھ مربع کلومیٹر تک محدود ہو  چکی تھی۔ جن ممالک نے برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کی ان میں پانچ براعظموں پر محیط  54 ریاستیں اب بھی دولت مشترکہ کی رکن ہیں۔ ملکہ آج بھی کئی ممالک جیسے آسٹریلیا،  نیوزی لینڈ اور کینیڈا کی سربراہ تھیں اور اب بادشاہ چارلس سوئم ہیں۔ دنیا میں جو تغیرات ملکہ لزبتھ ثانی کے دور میں وقوع پذیر ہوئے وہ اس سے پہلے کسی اور بادشاہ یا ملکہ کو دیکھنا نصیب نہیں ہوئے تھے۔ وہ پہلی ملکہ تھی جنہوں نے بغیر آپریٹر کے پہلی لانگ ڈسٹنس ٹیلی فون کی، پہلا ای میل بھیجا اور پہلا ٹویٹ کیا۔ اس دوران سائنسی انقلاب کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی سیاسی تغیرات کا لامتناہی سلسلہ جاری رہا۔  انہوں نے جنگوں کی تباہ کاریاں دیکھیں، سرد جنگ کا زمانہ دیکھا، ملک ٹوٹتے اور بنتے دیکھے، قدرتی آفات اور کرہ ارض پر موسمی تغیرات کے منڈلاتے سائے دیکھے۔ ان کے دور میں  13 امریکی صدور اور 5 پاپائے روم گزر گئے۔ برطانیہ کے 14 وزرا ء اعظم نے ان کے ساتھ کام کیا، 15 ویں اور موجودہ وزیراعظم لز ٹروس نے ان کی موت سے ایک دن پہلے ان سے ملاقات کی تھی۔تغیرات اور انقلابات کے اس طویل دور میں ملکہ نے ہمیشہ بہت محتاط اور سمجھ داری کے ساتھ سیاست سے بالاتر رہ کر اپنے فرائض انجام دیتے‘ہمیشہ نپے تلے اور مختصر الفاظ میں اپنا مدعا بیان کیا۔ ضرورت سے زیادہ بات کرنے سے گریز کیا۔ ملک کے ہر وزیراعظم نے ان کا احترام کیا اور ان کو کسی سیاسی جھمیلے میں گھسیٹنے سے احتراز کیا۔ کسی نے ان پر جانبداری کا الزام لگایا نہ انہوں نے کسی کو موقع دیا۔ محل کے اندر شاہی خاندان پر الزامات لگے۔ لیڈی ڈیانہ جیسی پرکشش اور مقبول خاتون نے شاہی خاندان کی شکایتیں کیں۔ پچھلے سال جب بادشاہ چارلس کے بیٹے شہزادہ ہیری کی بیوی میگن نے شاہی خاندان پر کیچڑ اُچھالا تو اس وقت ملکہ کے شوہر شہزادہ فلپ، ڈیوک اف ایڈنبرا،  ہسپتال میں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھے۔ اس سخت وقت میں بھی ملکہ نے استقامت،  وقار اور متانت کا مظاہرہ کیا اور اتنا کہا کہ یہ ان کا خاندانی معاملہ ہے اور خود اس کو حل کریں گے۔ اب جب ملکہ کا انتقال ہوا ہے توشہزادہ ہیری بھی شاہی خاندان کے ساتھ ملکہ کی آخری رسومات میں شامل ہوئے ا اور ایک موقع پر اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکے۔ اس سال جون میں ملکہ نے پلاٹینم جوبلی منائی۔ اس موقع پر ہم نے بہت سے لوگوں سے بات کی اور ان کی راے معلوم کی۔  ہر ایک نے عزت اور احترام سے ملکہ کا ذکر کیا اور ان کو پسند کیا۔ ان کے نہ چاہنے والے بھی ہیں لیکن آٹے میں نمک کے برابر۔ ان کی مقبولیت اوسطا ً79 فیصد اور کبھی بھی  60 فی صد سے کم نہیں رہی۔ اس میں ان کے مدبرانہ انداز کا عمل دخل بھی  ہے۔ نہ کبھی ضرورت سے زیادہ بات کی اور ہمیشہ مختصر لفظوں میں اپنا مدعا بیان کیا۔ ان خوبیوں کی وجہ سے گیلپ سروے میں 52 دفعہ ملکہ دنیا کی 10 مشہور ترین خواتین میں شامل رہیں۔ ملکہ کی وفات کی خبر سن کر ملک کے طول وعرض سے عوام نے دکھ کا اظہار کیا اور جہاں بھی ان کا جسد خاکی رکھا گیا وہاں ان کو الوداع کہنے والوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ ملکہ کے ناقدین بھی ہیں۔ وہ برطانوی سامراج کا دور یاد دلا کر الزام لگاتے ہیں کہ نوآبادیاتی نظام میں لوگوں پر غلامی مسلط کی گئی تھی اور ان کے حقوق سلب کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ محکوم اقوام  کے وسائل پر بھی قبضہ کیا گیا تھا۔ کوئی بھی نوآبادیاتی نظام کی حمایت نہیں کرسکتا لیکن ملکہ کے دور میں تو بہت سارے ممالک نے غلامی کے طوق اتار پھینکے اور اکثر ممالک نے دولت مشترکہ میں برطانیہ کے ساتھ اپنی مرضی سے شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ مزید برآں برطانوی طرز حکومت میں ایک شخص خواہ وہ ملکہ ہی کیوں نہ ہوں فیصلہ نہیں کرتی۔ فیصلے حکومتیں کرتیں ہیں اس لئے صرف ملکہ کو نوآبادیاتی نظام کے لئے مورد الزام  ٹھہرانا ایک بحث طلب موضوع ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں ایک واقعہ یاد آیا جس میں ایک برطانوی باشندے نے دوسرے ملک پر حکومت کرنے کی توجیح پیش کی۔ ایک دفعہ ہائیڈ پارک میں ایک برطانوی باشندہ کسی موضوع پر تقریر کر رہا تھا کہ مجمع میں سے ایک سیاہ فام افریقی نے اسے ٹوک کر کہا " تم نے ہمیں غلام بنایا تھا، غلط کیا تھا"۔ مقرر نے جواب دیا " اس وقت جو کچھ ہوا اس کی قانون میں ممانعت نہیں تھی۔  آج تم اور میں دونوں ایک جیسے شہری ہیں۔ ہمارے ایک جیسے حقوق ہیں۔ آج کوئی تمہارے حقوق سلب کرے گا تو قانون حرکت میں آئے گا اور تمہارا تحفظ کرے گا"۔ ناقدین کو اپنی رائے کا حق ہے لیکن جس تعداد میں عوام نے ملکہ کو خراج عقیدت پیش کیا،ان کو الوداع کہنے میلوں لمبی قطاروں میں لگ کرانتظار کیا اس سے ان کی اپنی عوام میں مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔