افغان مہاجرین کے معاملات پر پی اے سی اجلاس میں بحث


پبلک اکاونٹس کمیٹی کے ایک اہم اجلاس میں کمیٹی کے چیئرمین نورعالم خان نے سیکرٹری سیفران اور چیئرمین نادرا سے پاکستان میں قیام پذیر افغان مہاجرین کی سٹیٹس‘سرگرمیوں اور رویوں پر متعدد سوالات اٹھاتے ہوئے کافی سخت ردعمل دکھایا جس پر بعض سیاسی حلقے کافی ناراض بھی ہوتے دکھائی دیے تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مہاجرین سے جڑے بعض مسائل اور معاملات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا سال 1978-79کے دوران لاکھوں افغانی جنگ کے ہاتھوں پاکستان اور ایران پہنچ گئے تو پاکستان نے بھی بوجوہ ان کا نہ صرف خیرمقدم کیا بلکہ ان کو کیمپوں کے علاوہ عام آبادی میں قیام سمیت کاروبار کی غیرمشروط اجازت بھی دی‘اسکے برعکس ایران نے ان کو کیمپوں تک محدود رکھا ایران میں پناہ لینے والوں کی اکثریت نان پشتون تھے جبکہ پاکستان آنے والوں کی اکثریت پشتونوں پر مشتمل تھی‘سال 1984کی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں تقریبا 23لاکھ افغان قیام پذیر تھے‘ پاکستان میں ان کو صوبہ پختون خوا اور بلوچستان کے پشتون علاقوں میں بسایا گیا کیونکہ یہ دو صوبے پاک افغان سرحد پر واقع ہیں‘ 1987 کی ایک امریکی رپورٹ کے مطابق ان دو صوبوں میں کل مہاجرین کے 89 فی صد رہائش پذیر تھے اور اب بھی وہی شرح ہے‘ان کو نہ صرف مختلف حکومتوں نے سہولیات فراہم کیں بلکہ عوام نے بھی ان کو بھائیوں کی طرح رکھا اور کچھ ہی عرصے میں انہوں نے بہت بڑے پیمانے پر کاروبار بھی شروع کئے جو کہ اب بھی جاری ہیں اجتماعی طور پر ان کو کبھی امتیازی سلوک کا نشانہ نہیں بنایا گیا حالانکہ ان میں سے لاتعداد لوگوں کی غیر قانونی سرگرمیوں اور قیام کے ثبوت مختلف اوقات میں سامنے آتے رہے‘بڑا مسئلہ یہ رہا کہ سال 1987-88 کے جنیوا معاہدے، سوویت قبضے کے خاتمے، طالبان حکومت کے قیام‘ امریکی نواز حکومتوں کے قیام اور اب پھر سے طالبان کے برسراقتدار آنے کے باوجود ان تمام تبدیلیوں کے ہوتے بھی افغان مہاجرین بوجوہ پاکستان میں قیام پذیر رہے اور یہ اس 20 سالہ دور میں بھی اپنے ملک نہیں گئے حالانکہ بعض ممالک نے ان کو زبردستی نکالا بھی افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ ان افغان باشندوں نے ہر دور میں اسکے باوجود پاکستان سے نفرت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا کہ ان کو دوسرے ممالک کے مقابلے میں یہاں غیر معمولی حقوق اور سہولیات میسر رہیں‘حالانکہ ان کے پڑوس میں تاجکستان، ازبکستان اور دیگر وہ ممالک بھی موجود ہیں جن کے ساتھ بعض نان پشتون لسانی گروپوں کے تاریخی سیاسی اور سماجی روابط رہے ہیں‘حالت تو یہ رہی کہ ان ممالک میں ان لسانی گروپوں کے عام شہریوں کو گھسنے بھی نہیں دیا گیا صرف اشرافیہ کو مشروط قیام کی اجازت ملتی رہی تاہم افغان بھائیوں نے ایران اور ان پڑوسی ممالک کے بارے میں کھبی وہ لہجہ اور رویہ اختیار نہیں کیا جو کہ وہ پاکستان کے خلاف استعمال کرتے آئے ہیں‘غالبا نورعالم خان نے اسی طرزِ عمل کو سامنے رکھ کر سوالات اٹھائے اور متعلقہ حکام کی کافی سرزنش بھی کی کیونکہ نورعالم خان خود پشاور کے رہنے والے ہیں اور ان کو اس طرزِ عمل کا کسی سے بھی زیادہ تجربہ ہے‘یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہمارے بعض سیاسی حلقوں کو بھی یہ مہاجرین اس وقت یاد آ جاتے ہیں جب ان کو کسی بات یا واقعہ کی آڑ میں پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کا کوئی موقع مل جاتا ہے اور اب کے بار بھی انہی حلقوں نے پی اے سی کے اجلاس کو سوشل میڈیا پر ہدف تنقید بنایا‘تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ اب بھی لاکھوں ان افغان بہن بھائیوں کے پاسپورٹ پاکستان کی ایمبیسی میں ویزوں کیلئے پڑے ہوئے ہیں جن کا سیاست وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں اور وہ پناہ اور روزگار کی تلاش میں پاکستان آنا چاہتے ہیں‘شیشے کے گھروں میں بیٹھے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنیوالے معترضین کو نہ پہلے زمینی حقائق کا کوئی ادراک تھا اور نہ ہی کرکٹ میچ کے دوران کرسیاں پھینکنے والے باہر کے ممالک میں رہائش پذیر بعض لوگوں کو عام افغانیوں کی تکالیف کا کوئی احساس ہے‘ان تمام عوامل سے قطع نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان مہاجرین کے قیام اور ان سے متعلقہ دوسرے معاملات کا ازسرنو جایزہ لیکر ایک مربوط حکمت عملی تیار کی جائے کیونکہ پاکستان کو سیاسی اور اقتصادی طور پر متعدد نیے چیلنجز کا سامنا ہے اور پی اے سی کے اجلاس میں کی گئی بحث کو محض ایک وقتی ردعمل کا نتیجہ نہیں سمجھا جائے۔