ٹائم کیا ہوا ہے (یادش بخیر)

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسل قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
جب ہم لاہور کے ادبی حلقوں میں جاتے ہیں تو موجودہ اور پرانے ماحول میں بہت فرق محسوس کرتے ہیں۔۴۸۹۱ء کے وسط میں جب ہم لاہور وارد ہوئے تھے تو اس وقت ایک ہی دھن سوار تھی کہ ہم یہاں شاعری اور فلمی نغمہ نگاری ’فرمائیں‘گے اور اُن دنوں ہر روز شام کو پاک ٹی ہاؤس اور فلم سٹوڈیو کا چکر بھی لگایا کرتے تھے۔کیا اچھے دن تھے۔ادبی حلقوں میں زبردست رونق ہوا کرتی تھی۔پاک ٹی ہاؤس میں حلقہ ارباب ذوق کے تنقیدی اجلاسوں میں انتظار حسین‘اشفاق احمد‘ظہیر کاشمیری‘قتیل شفائی‘یونس ادیب‘احمد راہی‘سیف الدین سیف‘ سہیل احمد خان‘عارف عبدالمتین‘سیف زلفی اور اسرار زیدی جیسے دیگر اہل قلم جو اس وقت دنیائے فانی سے کوچ کر چکے ہیں‘دکھائی دیتے تھے۔ چائینزلنچ ہوم میں حلقہ ادب اور حلقہ ارباب ذوق مرکز کے اجلاسوں میں ہم نے کئی بار ڈاکٹر وزیر آغا‘انور سدید‘جیلانی کامران‘نثار اکبر آبادی‘غضنفر علی ندیم‘اسماعیل عاطف و دیگر کئی شعراء کو دیکھا۔ پنجابی ادبی سنگت کا اجلاس  وائی ایم سی اے ہال میں منعقد ہوتا تھا۔یہاں سلیم کاشر‘منظور وزیر آبادی‘رؤف شیخ‘راجہ رسالو‘صابر لودھی‘فرخندہ لودھی اور کئی دیگر سینئر حضرا ت نظر آتے۔پاک ٹی ہاؤس‘اتوار اور جمعہ کے روز حلقے کے پروگرام کی وجہ سے بھرا ہوا ہوتا تھا۔سبھی اہم ادیب‘شاعر یہاں دکھائی دیتے۔بزرگ افسانہ نگار خان فضل الرحمن‘مغرب سے تھوڑی دیر قبل ایک بزرگ خاتون کے ساتھ داخل ہوتے۔خاتون انہیں ایک کرسی پر بٹھاکر رخصت ہو جاتی۔خان صاحب وہیں بیٹھے بیٹھے نماز مغرب ادا کرتے اور پھر اوپر ہفتہ وار تنقیدی اجلاس کیلئے‘سیڑھیاں چڑھ جاتے جہاں اجلاس ہوا کرتا تھا۔اس زمانے میں لوگ شوق سے ان چائے خانوں میں بیٹھتے اور رات گئے تک ادباء شعرا ء کی محافل مختلف جگہوں پر جاری رہتی تھیں۔تنقیدی اجلاسوں میں شریک اہل قلم میں  قوت ِبرداشت بھی زیادہ ہوتی تھی۔تنقید خندہ پیشانی سے برداشت کی جاتی،اِکا دُکا واقعات کے علاوہ بہت کم بد مزگی دیکھنے کو ملتی۔ زیادہ تر ماحول خوشگوار رہتا تھا۔مشاعروں میں بھی آج کاسا ماحول نہیں تھا۔آج تو صورت حال یہ ہے کہ شعری نشستوں میں شاعر حضرات ہی کو سامعین کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔بعض اوقات تو کئی شعراء مشاعرے میں اپنا کلام پڑھ کر کھسک جاتے ہیں۔آخر میں عموماََ صدرمحفل یا میزبان ہی باقی رہ جاتے ہیں لیکن اس دور میں مشاعروں میں بڑی رونق ہوتی تھی۔حلقہ ارباب ذوق کے سالانہ انتخابات کی رونق تو دیدنی ہوتی تھی۔کئی نامور تخلیق کار سائیکل پر ٹی ہاؤس آتے۔جن میں ڈاکٹر سلیم اختر‘ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اور مبارک احمدخاص طور پر قابل ذکر ہیں۔یونس جاوید اور کنول فیروز سکوٹر پر ہوتے تھے میں نے ایسے کئی چائے خانے مصر کے شہر قاہرہ میں بھی دیکھے۔ان کے بارے میں کالم بھی لکھے۔ایسے ایک چائے خانے میں گیا تو اس کے درو دیوار پر دلچسپ اور فکر انگیز تحریریں لکھی ہوئی تھی۔ایک اقتباس کچھ اس طرح تھا:  ”سوچا تھا اٹلی گیا تو وہاں کافی ہاؤس ضرور جاؤں گا،مزہ آئے گا جب پس منظر میں کوئی خوبصورت دُھن بجتی ہو اور میں دھیرے دھیرے کافی کی چسکیاں لیتے لیتے اپنی دوست سے زندگی‘آرٹ‘ محبت اورخوابو ں کی ڈھیروں باتیں کروں گا لیکن یہ کیا؟ میرا تو یہ خواب اٹلی جائے بغیر پورا ہو گیا۔میں اس کافی ہاؤس میں ہوں لیکن افسوس یہاں ایسے لوگ بھی آنے لگے ہیں جن کو نہیں آنا چاہئے۔“پاک ٹی ہاؤس اور ادبی بیٹھک میں بھی یہ اقتباس تحریر ہونا چاہئے تاکہ فالتو لوگ جن کا ادب و ثقافت سے دو ر کا بھی تعلق نہیں،یہاں نہ آسکیں۔ لاہوراب کسی حد تک سونا ہو گیا ہے‘ بیشتر اہل ِقلم پوش علاقوں میں جابسے ہیں۔شہر میں ٹریفک کا نظام بھی ایسا ہے کہ کوئی گھر سے پاک ٹی ہاؤس یا ادبی بیٹھک کے لئے نکلنے کا رسک نہیں لیتا۔تاہم پھر بھی کہیں نہ کہیں لکھنے والے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے لوگوں کو پہلے سے زیادہ مربوط کر دیا ہے۔ہر لمحہ وٹس اَپ‘فیس بک‘ٹویٹر کے ذریعے ایک دوسرے سے باخبر رہنے والے آپس میں ملنے کی کم ہی کوشش کرتے ہیں۔چلتے چلتے مصری شاعر احمد عبدالمعطی حجازی کی چند سطریں ملاحظہ ہوں جو آج کی صورتحال کو واضح کرتی ہیں:
 میں پتھر اور شیشے سے بنے شہر میں ہوں 
جہاں انسانوں،گرمی اور غبار کے سوا کچھ نہیں 
یہاں کوئی باغ نہیں رہا
شہر کے مکیں،غبار اور گرمی میں سانس لیتے ہیں 
ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں 
وہ چپ چاپ بس اپنے کام سے مطلب رکھتے ہیں 
 اگر بات کرنی ہو تو وہ ایک دوسرے سے صرف اور صرف 
وقت پوچھتے ہیں 
آپ کے پاس ٹائم کیا ہوا ہے۔