سراغِ زندگی

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کیلئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعداد و شمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
حالات کچھ بھی ہوں، مایوسی گناہ ہے۔ پر یشانی اور فکر ایک دیمک ہے جو انسان کو اند ر سے چاٹتی  رہتی ہے۔ ویسے بھی فکر میں گُھلنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ ’آج‘ ہی تمہارا سب کچھ ہے‘ آج اور’ابھی‘ پر نظر رکھیں کل کی سوچ۔۔ کل کی فکر۔ کل کیا ہونے والا ہے؟ کل کیا ہو گا؟کل کا دن کیا تکلیف لانے والا ہے؟ اس پر سوچنے سے آپ بیمار تو ہو سکتے ہیں لیکن’کل‘ کو آنے سے نہیں روک سکتے ہیں نہ مصیبت کو  ٹا ل  سکتے ہیں۔ آپ کو کیا خبر؟ کل کا سورج طلوع ہو گا بھی کہ نہیں۔ شاید کوئی بہت اچھی سبیل نکل آئے‘ لہٰذا اپنا آج خراب مت کریں۔ آپ کی عمر بس ایک دن ہے‘آ ج کا دن‘”لمحہ موجود“ بہت اچھا گزارئیے۔ فکر کی شال اتار پھینکئے اور خوش ہو جائیے۔اور اگر آپ بیکا ر بیٹھے ہیں تو کچھ کیجئے، مشغول ہو جائیے۔ کام کے خنجر سے فرصت کے لمحو ں کو کاٹ پھینکئے، بے کا ر کبھی نہ بیٹھیں  بے کا ر لوگو ں کے ساتھ مت بیٹھیں کہ بیکار لو گوں کے ساتھ بیٹھنا بھی اپنے خلاف جنگ کرنا یا اپنے اندر کے امن وا مان کو تباہ کرنا ہے‘کرنے کو کچھ نہیں تو موت کو دھیان میں لائیں سوچیں کہ آپ سے پہلے کتنے ہی لوگ چلے گئے۔ آپ کو بھی بہر حال جانا ہے‘ اپنے رب کا دھیان کیجئے‘وہ کہتا ہے”تم مجھے یا د کرو میں تمہیں یا د کروں گا“ اسے یا د کرنے سے ہر مسئلہ حل ہو جاتا ہے‘آپ Relax  ہو جائیں گے‘ سر درد ختم ہو جائے گا‘ آپ ہشاش بشاش ہو جائیں گے‘ پر یشانی میں ذکر خدا سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔  کیونکہ آج ہی آپ کااثاثہ ہے۔ فلسفی دانتے کا قول ہے: ”یہ سوچو کہ آج کا دن دوبارہ طلوع نہ ہو گا۔۔ ڈیل کارنیگی کے مطابق قلق، امریکہ میں قاتل نمبر ایک ہے۔ ایک سروے کے مطابق  دنیا میں دوسو ملین لوگ افسردگی میں مبتلا ہیں، یہ بیماری  دنیا ئے ارض پر پھیل رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا فانی ہے اگر ایسا ہے تو یہاں دل لگانے کی فکر کرنا، یہاں کے عارضی دکھوں اور پریشانیوں پر کڑھنا‘کہاں کی دانشمندی ہے؟ کہتے ہیں ”زندگی پو ری۔ ایک لقمہ روٹی اور ایک گھونٹ پانی ہے، باقی سب فضو ل ہے۔“ دوسروں کے بار ے میں مت سوچو اپنے آپ کو پُرسکون رکھو۔لوگ تمہارے بارے میں کیا کہتے ہیں مت سوچو ورنہ اعصابی مریض بن جاؤ گے۔ بہت سی بیماریاں فکر سے لاحق ہو تی ہیں (فکر ایک دیمک ہے جو ہمارے اندر کو چاٹ جاتی ہے) راضی رہنا سیکھیں جب ہم اپنے آپ سے راضی نہیں تو غیردوسروں سے کیسے راضی ہو جائیں گے سو دوسروں سے گلے شکوے چھوڑ ئیے اور معاف کرنا سیکھئے۔ انسان کو اپنا آپ سب سے پیارا ہو تا ہے خود پر اختیار بھی ہوتا ہے لیکن ہم اپنے نفس کے خلا ف نہیں چلتے‘ اگر ہم اپنے نفس کی غلامی میں رہتے ہیں تو دوسروں کے بارے میں کیسے سوچ سکتے ہیں کہ و ہ آپ کی سوچ کے مطابق چلے گا۔ حالانکہ ایک بزرگ فرماتے ہیں ”جب نفس تم سے کچھ کہے تو اس کا کہنا نہ مانو‘ نفس کی پیروی سے امید ختم ہو جاتی ہے“ نفس کے خلا ف چلنے سے دل مضبو ط اور ارادہ پختہ ہو تا ہے اور باطن کی پرورش ہوتی ہے‘ایک بزرگ فرماتے ہیں ”جو بھی تفکرات سے راحت اور عزت چاہتا ہے اسے تنہا اور تھوڑے پر راضی رہنا چاہئے“۔آ پ دنیا کے دکھو ں پر ُدبلے ہو رہے ہیں حالا ں کہ آ پ کو سانس کا اعتبار نہیں‘حضرت علی ؓسے پو چھا گیا انسان کو کتنا اختیار حاصل ہے۔ فرمایا:”ایک ٹانگ اٹھا ؤ۔اسکے بعد دوبارہ فرمایا اب دوسری ٹانگ اٹھا ؤ۔ کہا گیا یہ تو بس میں نہیں‘ حضر ت علیؓ نے فرمایا بس انسان  کے پاس اتنا ہی اختیا رہے“۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ”جو لقمہ تمہار ے منہ کے اند ر چلا گیا وہ تمہارا ہے جو ہا تھ میں ہے اسکا بھی اعتبار نہیں‘جو لباس تم نے پہن لیا وہی تمہارا ہے،باقی تمہارا کچھ نہیں“جب ایسی باتیں‘ہمیشہ ذہن میں رکھی جائیں تو دنیا کا بڑے سے بڑا خوف‘ دکھ‘ پریشانی خود بخود معدوم ہو جاتی ہے اور  انسان ہَلکا پھُلکا ہو جاتا ہے۔ گو یا اپنے حالات پر صابرو شاکر اور راضی ہو جاتا ہے۔ اچھے جوتوں کی تمنا کرنیوالا انسان جب پاؤ ں سے محروم انسان کو دیکھے تو اسے شکر اد کرنا پڑتا ہے نعمت کو شکر کے ذریعے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھ لو  اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو‘ بلندی کی طر ف دیکھنے والے منہ کے بل گر پڑتے ہیں۔