اچھوتا انداز (سید ابو یاسر)

کسی بھی شخصیت کے خیالات اور ان کا اچھوتے انداز میں اظہار اس وقت زیادہ اہم ہو جاتا ہے جب وہ شخصیت زندگی کا گہرائی سے مشاہدہ  کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور ساتھ وہ ایسے اہم عہدوں پر فائز بھی رہی ہو جہاں معاملات کی اہمیت اور اس کو سلجھانے کی قوت بھی کھل کر سامنے آجائے تو یہ محض الفاظ نہیں رہتے بلکہ ایک قیمتی خزانے کی صورت اختیار کرجاتے ہیں اشفاق احمد کی نشری تقاریر کی حیثیت بھی کچھ اس طرح کی ہے۔ ایک مقام پر وہ بیان کرتے ہیں ”۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ اب ہمارا کرکٹ کا موسم ہے جو کہ ہمیشہ ہی رہتا ہے‘ اس پر آپ بھی غور کریں۔ میں تو اتنا اچھا watcher نہیں ہوں‘ لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ ہر بیٹسمین اپنے مضبوط ہاتھوں‘ مضبوط کندھوں اور پر استقلال جمائے ہوئے قدموں‘اپنے سارے وجود اور اپنی ساری طاقت کے ساتھ ہٹ نہیں لگاتا‘ بلکہ اس کے سرکی ایک چھوٹی سی جنبش ہوتی ہے‘ جو نظر بھی نہیں آتی نہ ہرکوئی اس کونوٹ کر سکتا ہے‘ اس جنبش کے نہ آنے تک نہ چوکا لگتا ہے نہ چھکا لگتا ہے جب وہ بیلنس میں آتی ہے‘ تب شارٹ لگتی ہے۔ سرکس کی خاتون جب تار پر چلتی ہے وہ بیلنس سے یہ سب کچھ کرتی ہے‘ میں ابھی جس راستے سے آیا ہوں‘ مجھے آدھ گھنٹہ کھڑا رہنا پڑا کیونکہ ہماری بتی تو سبز تھی‘لیکن دوسری طرف سے آنیوالے لوگ ہمیں گزرنے نہیں دیتے تھے اور راستہ نہ دے کر کہہ رہے تھے کہ کرلو جو کرنا ہے‘ہم تو اس ڈسپلن کو نہیں مانتے۔یہ سوچ خطرناک ہے‘ بظاہر کچھ باتیں چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں‘ لیکن وہ نہایت اہم اور بڑی ہوتی ہیں۔ میں نے تھوڑے دن ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ کو سب سے زیادہ کرایہ کہاں سے ملتا ہے‘اس نے کہا سر مجھے یہ تو یاد نہیں کہ کسی نے خوش ہوکر زیادہ کرایہ دیا ہو‘ البتہ یہ مجھے یاد ہے کہ میری زندگی میں کم سے کم کرایہ مجھے کب ملا اور کتنا ملا۔ میں نے کہا کتنا‘ کہنے لگا آٹھ آنے۔ میں نے کہا کہ وہ کیسے؟ کہنے لگا جی بارش ہو رہی تھی یا ہوچکی تھی‘ میں لاہور میں بسنت روڈ پر کھڑا تھا‘ بارش سے جگہ جگہ پانی کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ سے بنے ہوئے تھے تو ایک بڑی پیاری سی خاتون وہ اس پٹڑی سے دوسری پٹڑی پر جانا چاہتی تھی لیکن پانی کے باعث جا نہیں سکتی تھی۔ میری گاڑی درمیان میں کھڑی تھی‘ اس خاتون نے گاڑی کا ایک دروازہ کھولا اور دوسرے سے نکل کر اپنی مطلوبہ پٹڑی پر چلی گئی اور مجھے اٹھنی دے دی۔ ایک دوسری جگہ پر اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ جب ہم کالج میں پڑھتے تھے تو ہم سینما دیکھنے جایا کرتے تھے عام طور پرگھر والے ہمارا سینما جانا پسند نہیں کرتے تھے لیکن ہم چلے جایا کرتے تھے ان دنوں سینما ٹکٹ خریدنے کے لئے لکشمی چوک میں ایک قطار لگتی تھی ایک دفعہ ہم قطار میں کھڑے تھے اور قطار بہت لمبی تھی اس قطار میں ایک آدمی تھا اس نے پرانی سی واسکٹ پہنی ہوئی تھی اور اس کی ہیئت کچھ اچھی نہ تھی نوجوان جو اس شخص کو اور اس جیسے دیگر لوگوں کو پسند نہیں کرتے ویسا ہی ایک نوجوان وہاں تھا اس نے اس شخص سے کہا ”با با جی تسی فلم دیکھنی اے“ اس نے جواب نہیں میں دیا تو نوجوان نے غصے سے کہا کہ پھر تم قطار میں کیوں پھنسے کھڑے ہو وہ کہنے لگا ”جی میں بندیاں دے کول ہونا چاہناں واں مینوں کوئی نیڑے نئیں آن دیندا“(میں لوگوں کے قریب آنا چاہتا ہوں لیکن مجھے کوئی اپنی قربت اختیار نہیں کرنے دیتا ہے)اس شخص نے کہا کہ میں اس غرض سے ہر روز لائن میں آکے کھڑا ہوجاتا ہوں اور اس طرح میرے ہر طرف آدمی ہی آدمی ہوتے ہیں حالانکہ میں نے کبھی فلم دیکھی ہے اور نہ ہی دیکھنی ہے ایسے ترسے ہوئے لوگ بھی ہیں اور اس قسم کے بے شمار لوگ ہمارے اردگرد ہیں جن کو انسانی کندھے کی ضرورت ہے لیکن بیچارے انسان کا یہ المیہ ہے کہ وہ ایسے ہی گھبرایا رہتا ہے مجھے وہ بابا اب بھی یاد ہے جو ایک دن اپنی 80 سال کی بوڑھی بیوی کو مرجا مرجا کہے جارہا تھا میں وہاں سے گزر رہا تھا اس سے پوچھا کہ بابا آخر قصہ کیا ہے تو وہ کہنے لگا کہ یہ دوائی نہیں کھاتی اور اگر اس نے دوائی نہ کھائی تو مر جائے گی میں نے  دوائی دیکھی تو وہ عام سی ملٹی وٹامن کی گولیاں تھیں کسی خاص بیماری کی بھی نہیں تھیں میں نے کہا بابا تو نوے سال کا ہے اور یہ اسی سال کی بڑھیا اب تو اسے مرنے دے تو اس کا کیا کرنا ہے تو وہ بابا کہنے لگا صاحب جی اس کی بڑی ضرورت ہے جدوں میں سویرے سے شام تک کنکر کنکر روڑے روڑے ہو جاتا ہوں تو چونکہ اس کو روڑے اکٹھے کرن داول آوندا اے اورایہہ میرے روڑے کنکر اکٹھے کر کر مینوں فیر زندہ کردیتی ہے۔ خواتین و حضرات! ایسے لوگ آپ کے شہر میں ابھی بھی موجود ہیں جو اس لئے قریب قریب بیٹھے ہیں جو دوسرے کو بکھرنے سے بچا لیتے ہیں۔ میری اپنی ذاتی آرزو ہے کہ پیسہ واقعی ضروری چیز ہے لیکن انسان کا احترام زیادہ لازمی ہے اس سے آپ کو زیادہ خوشی‘محبت ہے جو آپ کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے میری دعا اور آرزو ہے کہ ہم سب انسانوں کے قریب آئیں اور ان کو سمجھنے کی کوشش کریں“ ان منتخب اقتباسات کا حاصل مطالعہ زندگی کو اس انداز سے جینا ہے جس میں نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کیلئے بھی آسانی مہیا ہو۔