خواب‘کتاب اور ہم 

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
کتابیں زندہ بھی ہوا کرتی ہیں‘زندہ لفظوں کے ساتھ مہکتی‘بولتی‘گنگناتی‘ہنستی مسکراتی‘روتی‘رلاتی اور راستہ دکھانے والی بھی ہوتی ہیں‘یہ روح جھنجوڑنے‘جگانے اور سنبھالنے والی بھی ہوتی ہیں، ایسی کتابوں کو سینے سے لگا کر رکھنا چاہئے جو آپ کے من کو تبدیل کردیں۔کتابوں کے بغیر گھر کا تصور بھی ناممکن ہے۔الیکٹرانک میڈیا اور موبائل کی بھر مار نے ہمیں کتابوں سے دور کر دیا ہے۔اس کے باوجود کتاب کی اہمیت مسلمہ ہے۔زندہ قومیں کتاب دوستی میں ہمیشہ پیش پیش رہتی ہیں اور کتاب کلچر کے فروغ‘کتابوں کی اشاعت و ترویج کیلئے ہمہ وقت اقدامات کرتی رہتی ہیں‘ہمارے ہاں کتاب کلچر آخری سانسیں لے رہا ہے۔ لائبریریاں اول تو کتابوں کامدفن بن چکی ہیں یا اگر وہ کچھ بہتر حالت میں ہیں بھی تو وہاں کوئی قاری نہیں‘ یہ لمحہ فکریہ ہے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ کتاب کی طرف قارئین کو مائل کیا جائے لائبریریوں کو فعال بنانے کے اقدامات کئے جائیں‘کاش امریکہ اور یورپ کی طرح ہمارے ہاں بھی ایسے لیڈر ہوتے جو کتب بینی کا شوق رکھتے۔۔کتاب اور قاری کے حوالے سے یہ ساری باتیں ہمیں اس لئے یاد آرہی ہیں کہ ہمار ے ایک ادب دوست اور لکھاری شاہد بخاری نے اس مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ شاہد بخاری ریٹائرڈ بینکار ہیں ان دنوں سماجی اور ادبی خدمات کے لئے خود کو وقف کئے ہوئے ہیں کئی ادبی پرچوں کی ادارتی معاونت کرتے ہیں‘ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے کالم بھی لکھتے ہیں۔ ان دنوں وہ اپنے گھر کے قریب ایک ریڈنگ روم بنانے پر تلے ہوئے ہیں‘ اس سلسلے میں انہوں نے ڈی جی صاحب کو باقاعدہ درخواست دے رکھی ہے۔ اس کی کاپی ہمیں بھی ارسال کی گئی ہے۔شاہد بخاری معصوم آدمی ہیں‘ان کا خیا ل ہے کہ اگر کالم میں اس مسئلے کو موضوع بنایا جائے تو ڈی جی صاحب اور ان کا ماتحت عملہ اس خالی کمرے کو منہدم کرنے کی بجائے‘اسے ریڈنگ روم بنانے کی اجازت دے سکتے ہیں‘شاہد بخاری کا جذبہ قابل تحسین ہے کہ وہ کتاب کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں‘ خداکرے شاہد بخاری اور ان کے ساتھیوں کے دل کی مراد بر آئے اور وہ اپنے علاقے میں ایک فری لائبریری بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔یہ عمل واقعتا ایسا کام ہے جس سے اس علاقے کے نوجوان‘بچے بزرگ کتاب کی طرف مائل ہو سکتے ہیں‘اس مادی دور میں لوگوں میں آگہی اور شعور پیدا کرنے کے لئے‘انہیں کتب بینی کی طرف لانا بہت ضروری ہے۔ آگہی اور شعور سے انسان میں عجز و انکسار‘ برداشت‘برد باری اور امن و محبت اور اخوت فروغ پاتے ہیں۔ورنہ نئی نسل کا جو حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں‘ ہر ہاتھ میں موبائل ہے‘ایک ہی کمرے میں بیٹھے افراد اپنے اپنے موبائل پر مصروف ہیں‘ پاس رہ کر بھی ہم ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں۔اگلے روز ایک ویڈیو کلپ دیکھا۔ جس میں ایک نوجوان اپنے دوستوں سے کہہ رہا تھا ”یار کل جب کافی دیر انٹر نیٹ نہ آیا تو میں اپنے کمرے سے نکل کر گھر والوں کے پاس کھانے کی میز کے گرد بیٹھ گیا‘بڑا مزا آیا ہے‘بہت مزیدار ڈسکشن ہو رہی تھی‘ یار میرے گھر والے بھی اچھے خاصے معقول لوگ ہیں‘ہمارے بیشتر نوجوانوں کا یہی حال ہے‘وہ گھر میں رہتے ہوئے بھی اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے کٹے ہوئے ہیں۔ اس وقت تو سبھی چڑچڑے اور غصیلے ہو چکے ہیں‘مسلسل کمپیوٹر اور موبائل کے استعمال نے ان کے اعصاب شل کر دیئے ہیں جس سے ڈپریشن کی بیماری عام ہورہی ہے۔