شادی بیاہ کی تقریبات   (سید ابو یاسر)

مشہور معالج اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر حفیظ اللہ اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ”کوئی بڑی تقریب منعقد کرنا زندگی کا سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اس میں پروگرام کو ترتیب دینا ہوتا ہے۔ جگہ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ اخراجات کا تحمینہ لگانا پڑتا ہے پھر ان اخراجات کو پورا کرنے کے انتظامات کئے جاتے ہیں۔ سب سے مشکل مرحلہ دعوت نامے جاری کرنا ہوتا ہے۔ اور جب شادی بیاہ جیسی خاندان میں کوئی تقریب ہو۔ تو یہ مشکل دوچند ہوجاتی ہے۔ یہ تمام کام نمٹانا کسی ایک فرد کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ خاص طور پر رشتہ داروں، دوستوں، احباب اور عزیز و اقارب کو یاد رکھنا پڑتا ہے۔ کوئی ایک اہم شخصیت آپ سے رہ گئی تو ساری زندگی اس کے سامنے شرمندہ رہنا پڑتا ہے۔ آج تک کوئی کمپیوٹر پروگرام ایسا تیار نہیں ہوا کہ آپ بٹن دبائیں اور سارے دوست احباب کا نام آپ کے سامنے آجائے۔ تقریب کے شرکاء کی فہرست تیار کرنا ایک مشکل اور محنت طلب مرحلہ ہے۔ اس کے لئے طویل مشاورت کرنی پڑتی ہے۔ اور کئی دنوں کی محنت کے بعد بھی جو فہرست تیار ہوتی ہے۔ وہ بھی نامکمل لگتی ہے۔دعوت نامے کی فہرست کی تیاری کے بعد دعوتی کارڈ کا انتخاب بھی ایک محنت طلب کام ہے۔ کارڈ پسند کرنا، ان کی بروقت چھپائی اور تقسیم اپنی جگہ ایک بڑا منصوبہ ہوتا ہے۔ کچھ ہوشیار قسم کے مرد اور خواتین تقریب سے مہینوں پہلے کارڈ جمع کرنا شروع کرتے ہیں۔ بہت سے کارڈ جمع ہوجائیں تو ان میں سے باہمی مشورے کے بعد ایک کارڈ کا چناو ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت سارے کئے دھرے پر پانی پھیر جاتا ہے جب پسند کیا گیا کارڈ مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتا۔ یا اتنی تعداد میں دستیاب نہیں ہوتا۔ جتنا درکار ہوتا ہے۔ یا پھر اس پر اپنی مرضی کی چھپائی ممکن نہیں ہوتی۔ بالاخر تھک ہار کر اسی کارڈ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے جو مارکیٹ میں دستیاب ہوتا ہے۔ کارڈ کے چناو کے بعد بھی مشکلیں ختم نہیں ہوتیں۔ چھپائی کے بعد کارڈ پر دولہا یا دلہن کا نام، تقریب کی جگہ یا تاریخ غلط چھپ جاتی ہے۔ کیونکہ ہلہ گلہ کے دوران پروف ریڈنگ کا کسی کو خیال نہیں آتا۔ کارڈ چھپنے کے بعد ان میں غلطیان نمایاں نظر آتی ہے اور پھر اسے ٹھیک کرکے دوبارہ چھپوانا بھی الگ درد سر ہے۔دعوتی کارڈ پر میزبانوں کے نام لکھنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔ کس کا نام لکھا جائے کس کا نہ لکھا جائے۔ جب میزبانوں کی فہرست طویل ہوتی ہے تو چھپائی کرنے والا اعتراض کرتا ہے کہ اتنے سارے نام چھوٹے سے کارڈ پر کیسے سموئیں۔ لکھائی باریک رکھیں گے تو کسی کو نظر بھی نہیں آئے گا۔ یہ مرحلہ بھی بخیروخوبی طے ہوجائے تو کارڈ رکھنے کے لئے لفافے کا چناو کرنا پڑتا ہے۔ گوند والے خاکی لفافوں میں کارڈ ڈال کر بھیجنے کا دور گذر گیا۔ اب کارڈ سے ملتے جلتے ڈیزائن والے لفافے بھی بنوانے پڑتے ہیں۔ اب مشکل تر مرحلہ کارڈوں کی تقسیم کا ہے۔ طویل فہرست سے کارڈوں کا موازنہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ فہرست میں درج ناموں کے مقابلے میں کارڈ کم پڑ رہے ہیں اب دوگنی قیمت پر ایمرجنسی میں مزید کارڈ چھاپنے پڑتے ہیں۔مہمانوں کی فہرست تیار کرنے کے لئے عموما ایک کمیٹی بنائی جاتی ہے۔ جو پہلے ننھیال اور پھر دادیال والوں کی فہرست بناتی ہے۔ فرسٹ کزنز کو ترجیح دی جاتی ہے۔ سیکنڈ اور تھرڈ کزنز میں بھی اہم شخصیات کا چناو کرنا پڑتا ہے۔ پھر طرفین میں توازن بھی رکھنا پڑتا ہے۔ پھر بھتیجوں، بھانجوں، نواسوں اور پوتوں کا بھی انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ جب دوستوں کے چناو کی باری آتی ہے تو پسینے چھوٹتے ہیں۔ دوستوں میں سے عام طور پر ان لوگوں کو دعوت نامے جاری کئے جاتے ہیں جو دوستی کی بین الاقوامی تعریف کے زمرے میں آتے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ ماضی میں انہوں نے دعوت میں شرکت کرکے کتنے اور کیسے تحائف دیئے تھے۔ یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ فلان سے مستقبل میں کیا فائدہ اور کیا نقصان پہنچنے کا احتمال ہوسکتا ہے۔ انہی باتوں پر تفصیلی غور کے بعد فائدہ مند دوستوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔خاندان اور قریبی دوستوں کے بعد شہر سے باہر اور ملک کے مختلف شہروں میں رہنے والے احباب اور دوستوں کی الگ فہرست بنانی پڑتی ہے۔ بیرون ملک رہنے والوں کی بھی ایک لسٹ بنتی ہے۔ پھر سکول، کالج اور یونیورسٹی کے ہم جماعت اور پیشے سے متعلق لوگوں کی فہرست بنائی جاتی ہے۔ گھر کا ہر فہرست اپنے دوستوں، ساتھیوں اور مہمانوں کی فہرست بناتا ہے پھر ایک اجتماعی لسٹ تیار ہوتی ہے۔ فہرست پر دوبارہ نظر ثانی کی جاتی ہے اور ان لوگوں کے نام نکال دیئے جاتے ہیں جن کا ایسی دعوتوں میں ماضی میں طرز عمل قابل اعتراض یا ناقابل برداشت رہا ہے۔ اپنے دفتر یا کام کی جگہ پر قریبی دوستوں کے علاوہ ان بڑوں کو بھی بادل نخواستہ مدعو کرنا پڑتا ہے جس سے اکثر کام پڑتا ہے یا جن سے ایزا رسانی کا خدشہ ہوتا ہے۔ پڑوسیوں کا تو حق بنتا ہے اس لئے دعوت میں پڑوسیوں کو ان کے طرز عمل، سلوک، مہمان نوازی اور پسند و ناپسند کی بنیاد پر چناو کیا جاتا ہے۔ پھر ساتھ گاف، کرکٹ، فٹ بال، شکار کھیلنے والوں میں سے دو چار کو بلانا پڑتا ہے۔ فہرست کو دوبارہ دیکھنے کے بعد کچھ نام مزید یاد آتے ہیں انہیں بھی شامل کیا جاتاہے۔ دعوت پر لوگوں کو بلانا ایک فن ہے جس پر سیاسیات، ریاضی یا شماریات میں ایک الگ مضمون ہونا چاہئے۔ ایک خاندان کے دس افراد میں سے چار کا انتخاب کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔خاص طور پر پڑوسیوں کے انتخاب میں بہت احتیاط کرنا پڑتا ہے۔ جس کو آپ نے مدعو نہیں کیا۔ وہ کسی بڑی تقریب میں یہ بات یاد دلاکر آپ کو شرمندگی سے دوچار کرسکتا ہے۔اس لئے ہوشیار لوگ گھریلو تقریب میں مدعو کئے جانے والے مہمانوں کی فہرست ایک مہینہ پہلے تیار کرتے ہیں پھر روزانہ کی بنیاد پر اس پر نظر ثانی کرتے ہیں کچھ نام خارج کچھ اندراج کرتے ہیں اور تقریب کے دن تک یہ معمول بنالیتے ہیں۔سرکاری افسروں کو ایسی تقریبات میں کم ہی بلایا جاتا ہے۔ سرکاری افسر ان اپنے محکمے کے لوگوں کو ہی مدعو کرتے ہیں۔ پولیس اور فوجی افسروں کا اپنا سرکل ہوتا ہے وہ اپنے ہی ہم پیشہ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں۔ دعوتیں اڑانے کے زیادہ مواقع ڈاکٹروں کو ملتے ہیں خاندان میں کوئی دل کا مریض ہو۔ یا کسی کا بائی پاس آپریشن ہوا ہو۔ وہ لازمی طور پر کارڈیالوجسٹ کو بلاتا ہے۔ معدے کی تکلیف والے گیسٹروانٹرالوجسٹ کو ضرور مدعو کرتے ہیں سینے کی تکلیف والے چیسٹ سپشلسٹ کو ہی دعوت پر بلائیں گے تاہم سائیکاٹرسٹ یا سائیکالوجسٹ کو خال خال ہی کسی دعوت پر بلایا جاتا ہے کیونکہ دماغی امراض کے ماہر کو دعوت پر بلانے سے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ کسی بھی کام کو سیلقے سے کرنے کا گُر ہے اگر یہ آجائے تو بہت سے مشکل کام آسان ہو جاتے ہیں بصورت دیگر آسان کامشکل  اور تکلیف دہ بن جاتے ہیں۔