کاکاجی۔۔تاریخ اور تحریک آزادی کا ایک اہم باب

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
کاکا جی صنوبر حسین نے اپنی تمام زندگی اور دانش عوام کیلئے وقف کی تھی انہوں نے عوام کی  محرومیوں کو ختم کرنیکی خاطر اپنی خوش بختیوں کو قربان کردیا تھا اور ان محرومیوں کو دور کرنے کیلئے جلاوطنی کی زندگی بسر کی لیکن اتنی طویل جدوجہد‘ جیلوں اور مصیبتوں کے باوجود ان کا حوصلہ جواں رہا۔کاکا جی آزادی کی جنگ میں فرنگی سامراج‘کے خلاف ہر محاذ پر بہادری سے لڑے‘ ان کا حوصلہ اور عزم کبھی ماند نہیں پڑا۔کاکا جی ہماری تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جو پورے جنوبی ایشیا کی جدوجہد آزادی کا احاطہ کرتا ہے۔ جو مظلوم طبقوں کی حمایت استعماری اور استحصالی قوتوں کے خلاف جہد مسلسل کا قصہ بھی بیان کرتا ہے اور محروم قومیتوں کے حقوق کے حصول کی نغمہ گیری بھی کرتا ہے اور  قوم کی معاشی‘ معاشرتی‘ سیاسی اور تہذیبی زندگی کا ماضی‘ حال اور مستقبل بھی بتاتا ہے۔کاکا جی انسان کی عظمت سے آگاہ اور انسانی شرف کے قائل تھے وہ انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کے سخت مخالف تھے اور ایک غیر طبقاتی معاشرے کے قیام کے آرزو مند تھے کاکا جی ایک متنوع شخصیت کے مالک تھے انہوں نے سیاست‘ ادب اور صحافت کے میدانوں میں اتنا مربوط کام کیا ہے اور تینوں پر اتنی مضبوط گرفت رکھی ہے جنہیں نہ تو ایک دوسرے سے جدا کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ایک کو دوسرے پر فوقیت دی جاسکتی ہے۔ زندگی کے بارے میں کاکا جی کا رویہ اور نظریہ مثبت‘ ترقی پسند‘ انقلابی اور تعمیری تھا ان کی سوچ اور اپروچ سائنسی تھی وہ بے حد روشن خیال انسان تھے‘کاکا جی صنوبر حسین مومند انیسویں صدی کی آخری دہائی 1897ء میں پیدا ہوئے اور بیسویں صدی کی ساتویں دہائی 1963ء میں وفات پاگئے۔ وہ پشاور کے قریب ”کگہ ولہ“ نامی گاؤں کے رہنے والے تھے میٹرک کے بعد سکول میں استاد کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی لیکن انقلابی فکر اور حریت پسند طبیعت کے سبب حکمران برداشت نہ کرسکے۔ سرکاری ملازمت چھوڑنے کے بعد انہوں نے کسانوں اور مزدوروں کی تنظیم کاری‘ جدوجہد میں رہنمائی اور وطن کی آزادی کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دیا اور عملی سیاست میں حصہ لیا لیکن اپنی نوجوانی کی سوچ اور فکر کی گرمی اور انقلابی ذہن کی وجہ سے وہ ایک جگہ ٹک نہ سکے۔ خدائی خدمتگار تحریک‘ کانگریس اور پھر فارورڈ بلاک میں شامل ہوئے۔کاکا جی کو انگریزی استعمار سے اتنی سخت نفرت تھی کہ انہوں نے اپنی دھرتی کی ناموس اور اپنے عوام کی آزادی کے لئے مسلح جدوجہد کا راستہ چن لیا اور اپنے دور کی ایک انتہا پسند تنظیم ”انجمن نوجوانان سرحد“ میں شامل ہوئے۔ جس کے رہنما مفتی سرحد مولانا عبدالرحیم پوپلزئی تھے اپنے عوام کی دکھیاری زندگی اور وطن کی آزادی کے جذبے نے کاکا جی کو اعتدال کی راہ سے انتہا پسندی کی جانب دھکیل دیا لیکن بعد میں ان کے مطالعے‘ مشاہدے اور تجربے‘نے ان میں اعتدال اور توازن پیدا کیا اور پھر مرتے دم تک انہوں نے اس توازن کو برقرار رکھا۔جب انگریز حکمران کاکا جی کی انقلابی اور باغیانہ سرگرمیوں سے تنگ آگئے تو ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ دائر کیا لیکن گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کے باوجود کاکاجی نے جدوجہد جاری رکھی اور جب حالات زیادہ بگڑ گئے تو کاکا جی نے جنگ کا محاذ بدل دیا  اور باجوڑ چلے گئے اور غازی آباد کے مقام پر تحریک آزادی کے ایک بہت بڑے رہنما اور سامراج دشمن مجاہد حاجی صاحب ترنگزئی کے ساتھی بنے۔کاکا جی نے جس طرح محاذ جنگ تبدیل کیا اسی طرح جنگ کا طریقہ کار بھی بدل دیا۔ وہ بنیادی طور پر ایک دانشور‘ ادیب اور صحافی تھے۔ وہ ذرائع ابلاغ کی ضرورت و اہمیت سے آگاہ تھے انہوں نے ہینڈ پریس تیار کیا۔ ”شعلہ“ نامی اخبار نکالا۔ وہ خبریں‘ تبصرے اور مضامین خود لکھتے اور شائع کرتے وہ ایک ایسے انقلابی سیاستدان تھے جو وقت اور کام کی اہمیت اور حکمت عملی کو سمجھتے تھے وہ صرف ادب کے ہی نہیں سیاست کے بھی استاد تھے اسی لئے تو عملی سیاست سے کنارہ کشی کے باوجود اپنے انقلابی اور نظریاتی مشن کو جاری رکھے ہوئے تھے۔ کاکا جی  نے تخلیقی ادب کے ساتھ ساتھ اپنے پسندیدہ شاعر عمر خیام کی رباعیوں کا پشتو میں ترجمہ کیا اور عالمی شہرت کے حامل مصری ادیب ڈاکٹر طہٰ حسین اور شاہ ولی اللہ کی کتابوں کے ترجموں کے علاوہ مشہور صحابی ابوذر غفاریؓ کے حالات زندگی بھی قلمبند کئے جو ابھی زیور طبع سے محروم ہیں۔