سرسبز وادی

مشہور مصنف اور براڈکاسٹررضا علی عابدی وادی پشاور کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وادیئ پشاور اب بھی بہت سرسبز نظر آرہی تھی جن زمینوں کو آتے جاتے لشکروں نے بار بار روندا ہوگا وہ اب تک ہری بھری تھیں کبھی ریلوے لائن سڑک کے قریب آجاتی تھی کبھی بجلی کے بڑے بڑے کھمبے اور موٹے موٹے تار ساتھ ساتھ دوڑنے لگتے تھے بستیاں آتی تھیں اور گزر جاتی تھیں رمضان کا مہینہ تھا ان کے چائے خانے بند پڑے تھے اس تمازت کے عالم میں کہیں سے اچانک دریائے کابل آگیا یہ نوشہرہ کے قریب آجانے کی پہچان تھی یہ شہر شاید اکبر نے آباد کیا تھا کبھی یہاں دریا کے دائیں کنارے پر نوشہرہ خرد اور بائیں کنارے پر نوشہرہ کلاں‘ یہ دو گاؤں تھے ایک سرائے بھی تھی جس میں جہانگیر ٹھہرا تھا ایک قلعہ بھی تھا مگر تمام سرائیں اور تمام قلعے گزرتے قافلوں کی گرد میں مل کر خود بھی گرد ہو جایا کرتے ہیں اب ہم دریا دریا چل رہے تھے جہاں تک نگاہ جاتی تھی وہاں تک زمین تھی اس کے آگے بھی زمین تھی اور ان ہی زمینوں میں وہ چھوٹا سا گاؤں‘ لہور‘ آج بھی آباد تھا کچھ اور آگے ایک اور گاؤں ہنڈ تھا اس مشینی دور میں یہ جاننے کی فرصت کسے ہے کہ یہی ہنڈ کبھی گندھارا کا پایہئ تخت تھا یہیں آکر سکندر نے سندھ پار کیا اور چنگیز خان یہیں سے دریا کا پاٹ دیکھ کر واپس چلاگیا تھا یہیں محمود غزنوی نے پنجاب کے راجا جے پال کو شکست دی تھی اس کو مورخوں نے ہندوستان کا دروازہ کہا تھا اچانک خیرآباد آگیا سامنے دریائے سندھ شاہانہ انداز میں بہا چلا جا رہا تھا جس کے دوسرے کنارے پر عظیم الشان قلعہ اٹک تھا اکبر اعظم کا اٹک بنارش‘ چارصدیوں کا عینی شاہد کتنے ہی زمانوں چشم دید گواہ‘ یہاں ہماری گاڑی نے نئے پل کے راستے دریا پار کیا انگریزوں کا بنا ہوا لوہے کا پل سامنے نظر آتا رہا کبھی سارا ٹریفک اس مضبوط پل کے اوپر چلاکرتا تھا اور یوں محسوس ہوتا ہوتا تھا کہ گاڑی لوہے کے جنگل سے گزر رہی ہے، جس روز میں اٹک پہنچا یہ پل ایک دو سو سال پرانا ہو چکا تھا موٹرگاڑیاں نئے پل پر چلتی ہیں۔“ اس اقتباس کا حاصل مطالعہ وہ احساس ہے جو ماضی کے آئینے میں حال کو دیکھنے پر بیدار ہوتاہے کہ چیزیں کتنی تیزی سے بدل رہی ہیں اور جو کچھ آج ہمارے سامنے ہے وہ بھی جلد ہی ماضی کا حصہ بن کر یادوں تک محدود ہوجائیگا۔