”سارا غلہ چوہے کھا جاتے ہیں“

جدید دور کو معاشی تعلقات کا دور کہا جا سکتا ہے،یعنی ممالک کے درمیان تعلقات کی بنیاد تجارت اور معیشت ہوتی ہے، تاہم یہ کوئی نئی روایت نہیں بلکہ یہ صدیوں اور دہائیوں سے جاری رجحان ہے،جہاں غالب اقوام دیگر ممالک کے وسائل سے استفادہ  کرتے ہوئے ان کا استحصال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتیں، مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی کے سفر ناموں میں جہاں کسی بھی ملک یا مخصوص خطے کے حوالے سے معلومات موجود ہوتی ہیں بلکہ ساتھ ہی ایسے تاریخی حقائق بھی وہ انتہائی دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہیں جو ان کی تحریروں کا خاصہ ہے۔ ایک مقام پر وہ فرانس کے لوگوں کی  ماریشس کی معیشت پر قبضے کی داستان وہاں کے ایک شہری قاسم ہیرا کے توسط سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہیراکیاآپ کے والد کا نام تھا؟جی ہاں‘ میرے سارے بزرگوں کانام ہیراتھا’ان کا بھی جو پہلی بار سمندری جہاز سے اس سرزمین پر اترے تھے؟ جی ہاں‘ کیا ان کا ریکارڈ بھی محفوظ ہے رجسٹروں میں؟ جی‘ آپ نے دیکھا ہے؟ جی‘ بس اس سے زیادہ اگر کسی نے اپنے بزرگوں کے متعلق بتایا تو وہ کریم بلا تھا۔ اکثر نے بات کا رخ ادھر جانے نہیں دیا۔ قاسم ہیرا علی گڑھ کے تعلیم یافتہ ہیں‘ ان کے والد بڑے اچھے مصور تھے اور شیشے کی پشت پر نہایت عمدہ روغنی تصویر بناتے تھے جو فریموں میں آراستہ آج تک ان کے چھوٹے سے آرام دہ مکان کے ہر کمرے اور راہ داری میں لگی ہیں ’ہیرا صاحب‘ یہ جہازی بھائی کون تھے‘ میرا یہ پوچھنا تھا کہ تاریخ کے دفتر کھل گئے‘ ہوا یہ کہ ماریشس میں سب سے پہلے عرب آئے۔ یہ چھٹی صدی کے وسط کی بات ہے۔ ان کے بعد واسکوڈی گاما ادھر سے گزرا۔ پھر پرتگالی آئے‘ ان کے بعد ولندیزی آئے۔ نہر سوئز تو اس وقت تھی نہیں‘ہندوستان اور مشرق بعید جانے والوں کو راس امید کا چکر کاٹ کر ادھر ہی سے گزرنا پڑتا تھا۔ ولندیزیوں نے اس جزیرے پر اپنا جھنڈا گاڑا اور یہاں کی زمین سے دولت اگانے کے لئے باہر سے غلام لانے شروع کئے۔ وہ ملایا سے‘ جاواسے‘ مڈغاسکرسے اور سب سے بڑھ کر ہندوستان سے غلام لاتے انہوں نے نساؤ کے شہزادہ ماریس کے نام پر اس جزیرے کا نام ماریشس رکھا۔ ظالم بہت تھے‘ لہٰذا غلاموں پر مظالم توڑنے شروع کئے‘ظلم جب بہت بڑھا تو اس جزیرے کی تاریخ میں پہلی بار غلاموں کی بغاوت ہوئی‘آخر تنگ آکر ولندیزی اس جزیرے کو چھوڑ گئے اور یہ کہتے ہوئے گئے کہ یہاں چوہے بہت ہیں‘سارا غلہ کھا جاتے ہیں‘میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا‘ مجھے یقین ہے ولندیزیوں کے بعد یہاں انگریز آئے ہونگے‘ ’جی نہیں‘ نئی نئی زمینوں پر قبضے جمانے کی دوڑ میں فرانس والے ان سے آگے تھے‘ 1715ء میں فرانسیسی جہاز اپنے جھنڈے لہراتے ہوئے ان ساحلوں پر لگے اور اب جو انہوں نے ہماری زمین پر قدم رکھا تو وہ قدم آج تک جما ہوا ہے‘ انہیں چوہوں‘ غلاموں اور انگریزوں‘ سب نے پریشان کیا‘سلطنت برطانیہ نے انہیں شکست دے کر ماریشس ان سے چھین لیا مگر ان زمینوں‘ ان فصلوں‘ان ملوں اور ان کارخانوں پر آج تک فرانسیسی نسل کے باشندوں کا غلبہ ہے“اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ غالب اقوام کی جانب سے دیگر ممالک کے وسائل کا استحصال کرنے کی روش کا تسلسل ہے جو آج تک جاری ہے اور ا کیسویں صدی میں بھی اس کی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔