ادب کا مرکز

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
شدید گرمی کا موسم ہے مگر شعراء کی سرگرمیاں جاری و ساری ہیں‘کئی دنوں بعد اکادمی ادبیات پاکستان کے مقامی دفتر جانا ہوااصل میں لاہور کے پھیلاؤ اور ٹریفک کے دباؤنے کئی دشواریاں پیداکردی ہیں‘ اب گھر سے نکلتے وقت کئی بار سوچنا پڑتا ہے‘برادرم محمدجمیل کی بارہا دعوت کے باوجود شہر کے تیسر ے کونے میں قائم اکادمی کے دفتر میں نہ جا سکا۔ علامہ اقبال ٹاؤن میں جب یہ دفتر ہوتا تھا تو کسی نہ کسی تقریب میں حاضری ہو جاتی تھی۔ اقبال ٹاؤن شہر کا مرکزی علاقہ بن چکا ہے۔بیشتر اہل قلم اسی علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔پاک ٹی ہاؤس‘ادبی بیٹھک‘باغ جناح اور پلاک کی تقریبات میں لوگ آسانی سے پہنچ جاتے ہیں۔ گلبرگ ۳ میں اکادمی کے دفتر کیلئے بغیر ذاتی سواری کے جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ہم اس دفتر اس وقت گئے تھے جب یہ گھر ہوا کرتا تھا یعنی جب یہاں اردو دنیا کے ہمارے نامورادیب مستنصر حسین تاڑر رہائش پذیر تھے۔جی ہاں! اب انہی کی رہائش گاہ اکادمی ادبیات کا دفتر بن چکی ہے۔ویسے تو یہ ایک تاریخی بات ہے کہ ایک نامور ادیب کا گھر اکادمی کا دفتر ٹھہرا۔تاڑر صاحب کی شفقت بہرحال ہمیں میسر ہے کہ جب بھی ہمارا ادبی رسالہ (بجنگ آمد) انہیں موصول ہوتا ہے تو وہ فون پر اطلاع دیتے ہیں اور ہمیشہ اسے بند نہ کرنیکی تلقین کرتے ہیں۔بجنگ آمد نام ہی ایسا ہے کہ بیشتر اہل قلم سمجھتے ہیں کہ اس میں اہل قلم کی نوک جھونک زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔ اور اس میں ادب تخلیق کرنے والوں پر کھلی اور مثبت تنقید ہوتی ہے مگر ایمانداری کی بات ہے کہ تنقید ہم سے کوئی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ہم تنقید اور طنز کے چٹ پٹے مصالحوں سے آراستہ کالم،خبریں اور تحریریں پڑھنے کے دلدادہ ہیں مگر چاہتے سبھی یہی ہیں کہ ایسی تحریروں میں انہیں موضوع نہ بنایا جائے   سو ذرا سا کسی کے بارے میں کوئی جملہ شائع ہوجائے تو وہ آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے صاحبو! ہم بتانا یہ چاہتے تھے کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے دفتر میں پہچان انٹر نیشنل کے روح رواں خوبصورت شاعر حسن عباسی نے ایک مختصر مگر نہایت جاندار شعری نشست کا اہتمام کر رکھا تھا اور یہ نشست ناروے،فرانس اور کینیڈا سے تشریف لائے ہوئے مہمان شعراء کے اعزاز میں تھی۔ صدارت کیلئے جب حسن عباسی نے مدعو کیا تو قدرے خوف کے باوجود بھی ہم انکار نہ کر سکے۔ خوف یہ تھا کہ مقامی طور پر ان دنوں جو شعری نشستیں ہوتی ہیں ان میں اکثر و بیشترشاعر ہی سامعین ہواکرتے ہیں۔چالیس پینتایس کے لگ بھگ ان شعراء کو صدارتی کرسی پر بیٹھ کر آخر تک سننا آسان نہیں ہوتا اور پھر بعض تو اپنا کلام پڑھ کر ”کھسک“ بھی جاتے ہیں۔صدر محفل کی باری آتی ہے تو دس بارہ مروت کے مارے شعراء یا منتظمین باقی رہ جاتے ہیں۔سو ایسی نشستوں کے لئے اہل ادب نے باقی احمد پوری‘خالد شریف‘نجیب احمد کو غیر شعوری طورصدر تسلیم کر رکھا ہے۔اور اب یہ بات کسی حد تک طے ہے کہ اِن شعری نشستوں کی صدارت انہی میں سے کوئی ایک شریف اور مرنجاں مرنج شاعر ہی کرے گا۔اکادمی کادفتر چونکہ شہر کے مرکزی ادبی گوشوں سے ہٹ کر ہے تو اس شعری نشست کی اہم بات یہ تھی کہ اپنا کلام پڑھ کر کوئی شاعر بھی اٹھ کر نہ گیا بلکہ آخر تک سبھی شعرا بیٹھے رہے‘جن شعرا ء نے اپنا کلام پیش کیا ان میں محمد جمیل، اقبال پیام شجاع آبادی،ریحانہ اشرف، زاہد محمود شمس،متین احمد،آفتاب جاوید،انیس احمد،جاوید رضی،عابد سیال،تیمور حسن،اور مہمانان خصوصی شاہینہ کشور،آفتاب وڑائچ اور ایاز احمد ایاز شامل تھے۔شعراء کی تعداد مناسب ہونے کے سبب یہ مشاعرہ دو گھنٹے میں مکمل ہو گیا اور پہلی بار کسی مشاعرے سے ہم بروقت فارغ ہو کر گھر آگئے۔