موہنجوداڑوپر کیا گزری؟

مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی کا طرز تحریر اس قدر دلچسپ اور دلنشین ہے کہ پڑھنے والا آخری لفظ تک تحریر پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا ان کے سفرنامے معلومات سے لبریز ہوتے ہیں ان ہی میں سے ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں کہ صبح کی نئی نئی دھوپ ابھی نکلی تھی اور میں موہنجوداڑو کے کھنڈروں کی سڑکوں پر چل رہا تھا دونوں جانب سرخ اینٹوں کی عمارتیں میرے کان میں کہے جارہی تھیں کہ دوڈھائی ہزار برس قبل مسیح میں یہاں تمہاری طرح بڑے بڑے صاحب ثروت چلتے تھے وہ مہذب بھی تھے‘وہ باشعور بھی تھے ان کے سینے میں بھی حساس دل دھڑکا کرتے تھے‘ سندھ کا پانی ان کے گھروں کی دہلیز کو چھوکر بہتا تھا تو یہ بستی بھی سیراب ہوا کرتی تھی یہ تالاب بھی بھرا کرتے تھے اور پنجوں کے بل سیڑھیاں اترتے اترتے عورتیں آہستہ سے پانی میں چلی جایا کرتی تھیں تو سطح آب پران کے چمکیلے بال بھیگ جاتے تھے۔میں موہنجوداڑو کی گلیوں میں اتر گیا کہیں آنگن دیکھے کہیں چوبارے‘کہیں طاق دیکھے‘ کہیں دریچے‘شہر کی فصیلیں دیکھیں اور بیچوں بیچ پہاڑی کی طرح کھڑا ہوا کشانوں کا سٹوپا دیکھا‘ دیواریں سرگوشیاں کرتی رہیں بتاتی رہیں کہ ان گلیوں میں بیل گاڑیاں کس طرح اناج لاتی تھیں اور ان دکانوں میں کس طرح مال بھرا رہتا تھا آخر میں دیواروں سے مخاطب ہوا‘ میں نے پوچھا کہ پھر کیا ہوا؟ اس شہر پر کیا گزری؟ شہر والے کہاں سدھارگئے؟ یہ شہر مردوں کا ٹیلہ کیسے بن گیا؟ میرا یہ پوچھناتھا کہ بولتی دیوارو ں نے چپ سادھ لی‘اپنا یہ راز انہوں نے اپنے سینے میں رکھا موہنجوداڑو کے کھنڈروں کو خدا جانے کیوں کھنڈر کہنے کو جی نہیں چاہتا کھنڈر وہاں ہوتے ہیں جہاں آبادی نہ ہو یہاں تو کسی کے قدموں کی چاپ آج بھی آپ کا پیچھا کرتی ہے پھر یہ چاپ بہت دور تک ساتھ ساتھ چلی‘ ڈوگری کی ریلوے کراسنگ سے گزر کر جب ہم سیتا روڈ نہیں پہنچ گئے‘موہنجوداڑو کی تہہ میں سرابھارنے والے دریا کے پانی کی شوریدہ خوشبو نے ہمارا تعاقب ترک نہ کیا۔باغ نیلاب سے بہت کم لوگ واقف ہیں‘ یہ اٹک اور خوشحال گڑھ کے درمیان دریائے سندھ کے کنارے ذرا اونچا پر اب تو ایک چھوٹا سا گاؤں ہے مگر کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں دریا سے لگی لگی یہ بہت بڑی آبادی تھی۔ لوگ یہاں سے دریا پار کیا کرتے تھے اور کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ شیر شاہ سوری کی عظیم شاہراہ یہیں سے شروع ہوکر مشرقی بنگال تک جاتی تھی‘دریائے سندھ کے کنارے سفر پر نکلا تو یہ طے کرکے چلا کہ باغ نیلاب جاؤں گا اور وہ جگہ ضرور دیکھوں گا جہاں کہتے ہیں کہ شور مچاتا دریا اچانک چپ ہوجاتا ہے‘باغ نیلاب تک ایک پکی سڑک بھی جاتی ہے۔ چنانچہ میں نے ایک ٹیکسی لی اور اپنے ایک میزبان کے ساتھ اٹک سے روانہ ہواجسے پہلے کیمبل پور کہا کرتے تھے‘ پہاڑوں سے اتر کر میدانوں کی طرف بڑھتے ہوئے دریائے سندھ کے کنارے یہ شاید پہلا مقام ہے جہاں صوفیائے کرام اور بزرگان دین مدفون ہیں‘جہاں اب بھی لوگ بڑی تعداد میں آتے ہیں‘ ذرا ہی دیر بعد باغ نیلاب کا گاؤں اور دریائے سندھ کا پانی نظر آنے لگا۔ اٹک میں تو دریا کی گزرگاہ اتنی تنگ ہے کہ دریا اٹکتا ہوا محسوس ہوتا ہے‘ باغ نیلاب سے ذرا اوپر ایک گھاٹی نظر آئی جو اٹک سے بھی زیادہ تنگ ہے‘  جہاں سے بڑی آسانی کے ساتھ دریا پار جایا جا سکتا ہے‘خود باغ نیلاب میں آکر دریا نیلی چادر کی طرح پھیل گیا تھا۔ یہاں نہ چٹانیں تھیں نہ پتھر۔ بس ریت کا دامن پھیلا تھا جس پر دریا یوں خاموشی سے گزر رہا تھا جیسے دیر سے گھر آنے والا بچہ ماں کے خوف سے اپنے پنجوں پر چلا کرتا ہے۔ نیلاب کی درگاہوں پر فاتحہ پڑھتے ہوئے ہم گاؤں کی دوسری جانب ایک اور ٹیلے پر چڑھے‘ یہاں بہت سے چھوٹے چھوٹے بچے علم حاصل کررہے تھے۔ پرائمری سکول کی ایک معمولی سی عمارت کے باہر گرم دھوپ میں بیٹھے ہوئے تیس پینتیس بچے جھوم جھوم کر کتابیں پڑھ رہے تھے اور پس منظر میں دریا پنجوں کے بل خاموشی سے چل رہا تھا کہ کہیں بچوں کی تعلیم میں مخل نہ ہو۔