”اپنے لئے سزا خود تجویز کرو“

ہر گزرا دن اس حوالے سے اہم ہوجاتا ہے کہ اس میں جو کچھ ہوچکا ہوتا ہے وہ ماضی  اوریادوں کاحصہ بن جاتا ہے۔معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر ریڈیو کے ایک ڈی جی کے سامنے اپنی پیشی کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان پر1960ء میں پہلی بار’جشن طلبہ‘ منایاگیا‘حسینہ معین غالباً ان دنوں کراچی کے ویمنز کالج کی طالبہ تھیں‘جب میں نے ان کا لکھا ہوا ڈرامہ پڑھا تو مجھے بے حد پسندآیا‘میں نے فیصلہ کیا کہ یہ میں خود پر وڈیوس کروں گا‘اس چھوٹے سے ڈرامہ کا نام’پڑیاں‘تھا اس  کے نشر ہونے کے چار پانچ روز بعد مجھے علم ہوا کہ سرکاری حلقوں میں اس پرکچھ تنقید کی جارہی ہے اورمارشل لاء والوں نے اس کا نوٹس لیا۔نتیجتاً ڈائریکٹر جنرل کے دفتر میں میری پیشی ہو گئی‘ ان دنوں ڈی جی رشید احمد تھے حسب حکم میں نئے ڈی جی کے دفتر میں حاضر ہوگیا‘انہوں نے ابتداء میں چندبنیادی سوالات کئے پھرانہوں نے نہایت شائستہ زبان میں ایسے الفاظ میں میری ذہانت‘ میری مہارت‘ میری تخلیقی صلاحیتوں کی تعریف کی کہ میں ساری پریشانی بھول گیا۔ مگر سب کچھ کہنے کے بعد انہوں نے اچانک اپنا لہجہ بدلا اور تعریف وتوصیف کے سارے لفظوں کو میرے منہ پردے مارا۔ انہوں نے کہا ’تم جیسے باصلاحیت اور لائق پروڈیوسر کی غلطی ناقابل معافی ہے اگر کوئی نالائق پروڈیوسر ہوتا تویہ غلطی نظر اندازکی جا سکتی تھی مگر تمہارا معاملہ مختلف ہے‘ انہوں نے ایک طویل وقفہ دیا مجھے گھورتے رہے پھرکہا‘ جو طریقہ اس سلسلہ میں میں نے سوچا ہے وہ یہ ہے کہ تم خود اپنے لئے سزا تجویز کرو‘ میں ان کی بات نہ سمجھتے ہوئے حیرانی سے ان کی طرف دیکھنے لگا انہوں نے کہا اب تم جاؤ اورآدھے گھنٹے بعد ایک خط کا ڈرافٹ لکھ کر لاؤ جو تم میری طرف سے خود کولکھو گے‘ یعنی ڈی جی کی طرف سے اس پروڈیوسر کے نام جس نے یہ ڈرامہ پروڈیوس کیا‘ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہوں انہوں نے اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھا دیا۔ میں ڈی جی کے کمرے سے باہر نکلاتومیرا دوست محمد عمرانتہائی پریشانی کے عالم میں باہر کھڑا میرا انتظار کررہاتھا‘میں نے عمر کیساتھ اسکے کمرے میں بیٹھ کر مختصر ساخط لکھوایا‘ جس کامتن یہ تھا‘ڈیئر آغا ناصر‘ تم جیسے ذمہ دار اورباصلاحیت پروڈیوسر سے جو غلطی سرزد ہوئی ہے وہ ناقابل تلافی ہے کسی نالائق پروڈیوسر کی غلطی تومعاف کی جا سکتی ہے مگر تمہاری غلطی نہیں لہٰذا میں یہ سوچنے میں حق بجانب ہوں کہ تم اس ادارہ سے وابستہ نہ رہو۔عمر نے خط کا ڈرافٹ دیکھا تواس کاچہرہ فق ہوگیا۔ وہ میری خوشامد کرنے لگا‘ یار یہ ڈرافٹ ڈی جی کو نہ دے‘ تو نہیں جانتا‘ وہ اس پر دستخط کر دے گا مگر میں نے عمر کی ایک نہ سنی‘ آدھے گھنٹے کی مہلت ختم ہونے سے پہلے ہی لیٹر کا ڈرافٹ ڈی جی کے پرائیویٹ سیکرٹری کو جا کردیدیا اور ذہنی طور پرخود کو رضا مند کرنے لگا کہ وہ خط پر دستخط کر دیں گے اور میں ملازمت سے فارغ ہو جاؤں گا۔ پھر ہوا یہ کہ شام کو ڈی جی کے دستخطوں سے سٹیشن ڈائریکٹر کے نام خط آ گیاانہوں نے میرے ڈرافٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی‘ صرف ہر فقرے میں جہاں میں نے You لکھا تھا کاٹ کر we لکھ دیا تھا“ اس اقتباس کا حاصل مطالعہ ماضی کی یادوں کو قلمبند کرکے ان میں موجود واقعات اور حالات کا موازنہ حال کے ساتھ کرنا اور ان پر مستقبل کاڈھانچہ استوار کرنا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کا دن اور موجودہ لمحات بھی جلد ہی ماضی کاحصہ بن جائیں گے اور پھر ان کا تذکرہ اگر ایک طویل عرصے بعد کیا جائے تو یہ پرانے دن یکسر مختلف نظر آتے ہیں حالانکہ ایک انسان جب ان لمحات میں موجود ہوتا ہے تو ان لمحات کی انفرادیت اس پر کھلتی نہیں، کہیں بہت طویل عرصے بعد جاکر وقت اور لمحات اپنی انفرادیت انسان پر کھول دیتے ہیں۔