ماضی کے نقوش

سفر نامہ ویسے بھی ایک دلچسپ صنف تو ہے ہی تاہم اس کا لکھنے والا اگر عمیق مشاہدے کے ساتھ ساتھ ادبی چاشنی بھی اپنی تحریر میں سمو ئے تو پھر یہ ایک خاصے کی تحریر بن جاتی ہے۔ معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی کا شمار بھی ان مصنفین میں ہوتا ہے جنہوںنے متفرق موضوعات کو اپنی تحریروں کا موضوع بنا یا ہے۔ اپنی ایک سرگزشت میں آپ لکھتے ہےں بڑی بڑی باتیں تو سب ہی کو یاد رہتی ہےںمجھے ان چھوٹی باتوں سے والہانہ لگاﺅ ہے جو نہ صرف یاد رہتی ہےں بلکہ یاد آکر خوشیاں بھی دیتی ہےں‘ہماری گاڑی خانیوال پہنچ گئی کیسا جیتا جاگتا سٹیشن تھا‘مجھے وہ چھوٹا لڑکا خوب یاد ہے جس نے میرے کان کے قریب آکر چائے کی آواز لگائی‘ میں نے کہا میرے لئے چائے لے آﺅ وہ خوش ہوکر چائے لینے دوڑا‘ یہ توکوئی بڑی بات نہےں دوڑتے دوڑتے اس نے کہا شکریہ۔ اتنے چھوٹے سے شہر کے چھوٹے سے لڑکے کی زبانی ایسا سچا کھنکتا ہوا لفظ سنا تو جی جھوم اٹھا‘ اتنے میں ایک درویش صفت بزرگ آگئے جن کے ہاتھوں میں جوتے پالش کرنے کا سازو سامان تھا بہت غریب تھے مگر تنگدستی کی شکایت نہےں کی پولیس والوں کے جوتے پالش کرکے ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے محفوظ رہتے تھے‘میری جیب میںایک ایک دو دو روپے کے کچھ نوٹ تھے جو میں نے انہےں دے دیئے‘ لے کر چلے تو گئے لیکن کچھ دیر بعد دیکھا کہ واپس چلے آرہے ہےں آکر میرے دیئے ہوئے نوٹ میرے ہاتھ پر رکھ دیئے‘بولے ’صرف عزت والا کام کرتا ہوں یہ نہےں کہ کوئی غلط کام کروں میں نے ان سے جوتوں پر پالش نہےں کرائی تھی اور انہےں محنت کے بغیر خیرات لینا منظور نہ تھا‘ میری گاڑی سرکنے لگی میں کمسن چائے والے اور ضعیف عزت والے کو شکریہ بھی نہ کہہ پایا‘ خانیوال سے آگے میدان ہی میدا ن تھے نہ کوئی پہاڑی نہ کوئی ٹیلہ گاڑی جابجا نہروں کے اوپر سے گزرتی تیر کی طرح سیدھی چلی جارہی تھی‘ ملتان اور لاہور کے درمیان دو سو آٹھ میل لمبی یہ لائن 1864ءمیں ڈالی گئی تھی اس وقت یہ کام آسان نہ تھا‘ ٹھیکیداراناڑی تھے مزدور نایاب تھے یہاں تک کہ پٹڑیوں کےساتھ ساتھ بچھانے کےلئے پتھر بھی دستیاب نہ تھے میں اس شام لاہور پہنچا تو میرے بی بی سی کے دیرینہ ساتھی اور انکے کچھ دوست مجھے لینے آئے تھے اس وقت ان میں بحث ہورہی تھی کہ عابدی صاحب اونچے درجے میں بیٹھے ہوں گے یا نچلے درجے میں بہر حال وہ پلیٹ فارم پراس جگہ کھڑے میرا انتظار کررہے تھے جہاں اونچے درجے کے ڈبے لگتے ہےں‘اس شام انہےں مایوسی
 ہوئی۔ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ پھر وہی دریائے سندھ کا کنارہ ہے اور وہی دونوں جانب لداخ کے اونچے بنجر پہاڑ جن کے دامن میں ہر طرف پتھر بکھرے ہیں اور گھاس کا ایک تنکا بھی نظر نہیں آتا۔¾ سرحد پار تبت کے علاقے میں کیلاش کی پہاڑیوں سے نکل کر دریائے سندھ یہاں آگیا ہے اور میں ایک چھوٹے سے گاﺅں میں آپہنچا ہوں جو دیکھنے میں دریائے سندھ کے کنارے لیکن حقیقت میں ایک پہاڑی نالے کے قریب آباد ہے ¾دریا کافی نیچے گھاٹی میں ہے اور یہ نالہ جاکراس میں گر رہا ہے ¾ یہاں کچھ درخت لگے ہیں ¾چھ کھیت اُگے ہیں جنہیں وہ دریا نہیں ¾ یہ نالہ سیراب کر رہا ہے ¾کھیتوں کے بیچ پانچ دس کچے گھروندے ہیں اور ذرا اونچائی پر بھیڑ بکریوں کا ایک فارم ہے جہاں کوئی چرواہا گا رہا ہے۔یہ لداخ میں وہ جگہ ہے کہ مجھ جیسے غیر ملکیوں کو اس سے آگے جانے کی اجازت نہیں ¾ میں دریا کے بہاﺅ کےساتھ ساتھ اپنا سفر یہیں سے شروع کروں گا اور پانی کے ہاتھوں میں ہاتھ دےکر پہاڑوں پر چڑھتا ¾وادیوں میں اترتا ¾میدانوں میں دوڑتا وہاں تک جاﺅں گا جہاں تک یہ دریا جاتا ہے۔ ¾“ اس اقتباس کا حاصل مطالعہ سفر اوراس کے نتیجے میں انسانی مشاہدے اور تجربے میں اضافہ ہے اور اس کی بڑی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ اس دوران طرح طرح کے لوگوں سے ملاقات ہوجاتی ہے اور سفر کرنے والا اگر حاضر دماغ ہو اور سفر سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہورہا ہو تو راستے میں پیش آنےوالا ہرواقعہ خاص ہوتاہے۔