گفتگو کرکے وہ دل لوگوں کے موہ لیتا تھا

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
گفتار کی سچائی اور کردار کی گواہی دینے والی شاعری کے خالق محسن احسان حقیقی معنوں میں مجسم حسن وشرافت تھے، جن کی باتوں میں ایک شاعر ہونے کے باوجود مبالغہ آرائی اورخیال پرستی کا شائبہ تک نظر نہیں آتا، ان کی شاعری رومانویت اور حقیقت نگاری کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے جس میں احتجاج وبغاوت بھی احساس کی تلخیوں کو ایک بے نام سی مٹھاس میں بدل دیتا ہے اور جو اپنی فکری بلوغت اور فنی بلاغت کے جدلیاتی تعلق کاایک ایسا صاف وشفاف آئینہ ونمونہ ہے جس میں شخص وعکس کا کوئی فرق یا فکر وعمل کا کہیں تضاد نظر نہیں آتا۔
محسن احسان آج ہم میں موجود نہ ہونے کے باوجود ہر جانب زندہ وتابندہ نظر آتا ہے، جو ان کی فطری شرافت وشریفانہ فطرت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور انکی سچی وکھری شاعری کاناقابل تردید حوالہ بھی یہی وہ وصف ہے جو گفتار وکردار کے تضاد وتصادم میں گرفتار شخص کے روش و رویے میں کبھی اظہار پانے کا شرف حاصل نہیں کرسکتا اور جرات اظہار کے اس بلند درجے تک پہنچنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ
میری طرح کا بہادر کوئی نہیں ہے کہ میں
عدو کے سامنے اپنی شکست مان گیا
اس تاریخی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ بیسویں صدی تاریخ انسانی میں کمال کی صدی تھی، عالمی سطح پر سائنس، ادب، آرٹ، ثقافت اور تمدن کی تیز رفتار ترقی اور انقلابی تبدےلیوں نے انسان کو جس شرف وعظمت سے نوازا، اسے خلاءکو تسخیر کرنے اور اس کے قدم زمین سے اٹھاکر چاند پر جمانے کا اعزاز بخشا اس پر میں اس وقت بحث سے گریز کرتے ہوئے صرف اس تناظر میں برصغیر جنوبی ایشیاءمیں ادب اور ادیب کے کردار کے حوالے سے محسن احسان کی شخصیت ، فن اور فکر ونظر کاایک مختصر جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارے شاعر، ادیبوں اور فنکاروں نے اپنے قلم اور فن کے ذریعے اپنی دھرتی سے محبت اور وفاداری کا ثبوت پیش کیا، عوام کے سیاسی شعور کو بیدار کرنے، جمہوری رویوں کو عام کرنے اور طبقاتی فرق وامتیاز کو مٹانے کا اپنا منصبی فریضہ ادا کیا، محسن احسان اسی ادبی تحریک کا حصہ رہے ہیں،محسن احسان کی شاعری واقعتا سیاسی شعور کی شاعری ہے، ان کے بیدار وبے داغ ضمیر کی آواز ہے اور ان کے ذہن ودل کی یکجہتی کے اقرار واظہار کے حوالے سے حرف ولفظ کے ایک محترم کمٹمنٹ کا درجہ رکھتی ہے جس کو انہوں نے کسی بھی لمحے Disownنہیں کیا ۔ یہ بجا ہے کہ انہوں نے ضمیر کی آزادی کو ایک سیاسی نعرہ نہیں بنایا، کبھی کسی سیاسی سٹیج کو سجانے، جلسوں کو گرمانے اور لوگوں کے جذبات واحساسات کو سرعام مشعلہ یا مشغلہ نہیں بنایا مگر اپنے بالغ ومہذب سیاسی شعور کو لوگوں کے ذہنوں میں منتقل کرنے کا ہنر جانتے ہوئے اپنی منصبی ذمہ داریوں کو پورا کیا اور اپنے فکر وفن کو اپنے ضمیر کے سامنے شرمندہ ہونے نہیں دیا، چونکہ وہ ذہن بنانے والے شاعر تھے لہٰذا علمی اور ادبی سطح پر نہایت خلوص، محبت، تحمل اور بردباری سے اس عمل کو جاری رکھا اور اپنی تخلیق کا حصہ بنایا۔محسن احسان کا ہر سماجی حسی تجربہ ان کے اشعار میں واضح طورپر جھلکتا نظر آتا ہے اور ان کی شاعری ان کے سیاسی شعور کا عکس ونقش لئے ہوئے ہے‘حقیقت یہ ہے اور عصری صداقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ شاعروادیب اپنی تخلیقات میںا پنے فکری شعور اور روح عصر کو پیش نظر رکھ کر ہی بہتر اور بامقصد ادب تخلیق کرسکتے ہیں اور اسی حوالے سے ادب وفن کو اپنے خوابوں کی تعبیر اور نئی زندگی کی تعمیر کا ذریعہ بنا سکتے ہیں اور محسن احسان نے ایسا ہی کیا، اور اپنی شاعری کے ذریعے اپنے پڑھنے والوں کے سماجی شعور کو بیدار کیا ۔مختصر یہ کہ محسن احسان اپنی دھرتی اور عوام سے محبت کرنیوالے ایک نہایت ہی مہذب وشائستہ مفکر ودانشور تھے۔