معاشرتی روابط


تحریر میں دلچسپی کا عنصر پیدا کرنے کیلئے ضروری نہیں کہ اس میں اہم ترین واقعات کا احاطہ کیا گیا ہو یا مشہور شخصیات کا تذکرہ ہو بلکہ عام لوگوں اور معمول کی زندگی کے واقعات کو بھی اگر دلکش اسلوب میں بیان کیا جائے تو پڑھنے والے کو ضرور متاثر کرتا ہے‘ مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد کی تحریر اس کا بہترین نمونہ ہے۔ اپنی ایک نشری تقریر میں بیان کرتے ہیں کہ اوکاڑہ میں ایک میلہ لگتا ہے(اب پتہ نہیں لگتا ہے یا نہیں کیونکہ میری جوانی کے زمانے میں لگا کرتا تھا ) اور مجھے ان میلوں ٹھیلوں سے بہت دلچسپی ہے میں نے دیکھا کہ وہاں پر ایک پنگھوڑا لگا ہے اور اس کا مالک آٹھ آٹھ آنے لےکر گول گھومنے والے پنگھوڑے سے جھولے دے رہا ہے۔وہ پنگھوڑا آج کل کے پنگھوڑوں کی طرح بجلی یا مشین سے چلنے والا نہیں تھا بلکہ پنگھوڑے والا اسے ہاتھ کے زور سے گھماتا تھا میں وہاں بغیر کسی مقصد کے کھڑا ہو کر اسے دیکھنے لگا تو ایک گاﺅں کا آدمی وہاں آیا اس کی پگڑی کھل کر گلے میں پڑی ہوئی تھی اور اس نے کھدر کی تہبند باندھی ہوئی تھی وہ بھی اس پنگھوڑے کے لکڑی کے گھوڑے پر سوار ”جھوٹے“(جھولے) لے رہا تھا جب ایک ”پور“(چکر)ختم ہوا اور سارے اتر گئے تو تب بھی وہ شخص وہیں بیٹھا رہا اور وہ اکڑوں حالت میں بڑی تکلیف اور پریشانی میں ویسے ہی گھومتا رہا جب وہ تیسرے چکر کے اختتام پر بھی نہ اترا تومیرا اس میں تجسس بہت بڑھ گیا اور میں نے آگے بڑھ کر اسے کہا کہ آپ نے ”جھوٹے“ لے لئے ہیں اور آپ اترتے کیوں نہیں ہیں اگر 
آپ کو یہ چکر پسند ہیں تو پھر آپ کے چہرے پر خوشی ¾مزے اور بشاشت کے اشارے ہونے چاہئیں جو بالکل نہیں ہیں۔ اس نے کہا کہ جناب بات یہ ہے کہ یہ جو پنگھوڑے والا ہے اس سے میں نے تیس روپے لینے ہیں اور میں ہفتہ بھر سے اس کے پیچھے گھوم رہا ہوں اور یہ میرا قرضہ نہیں دے رہا ہے اور اب میں نے اس کا یہی حل سوچا ہے کہ میں اپنے قرضے کے بدلے اس کے پنگھوڑے پر”جھوٹے“ لوں‘ اب یہ میرا 29 واں پھیرا جا رہا ہے اور ہر مرتبہ میں آٹھ آنے کم کرتا جاتا ہوں اور اس طرح سے میں اپنا قرضہ واپس لے رہا ہوں۔ان اقتباسات کا حاصل مطالعہ ایک تو پہلے لوگوں کی طبیعت میںسادگی کا عنصر تھا جس نے ان کی زندگی کو آسان بنایا ہوا تھا ،ساتھ ہی وہ لوگ آپس میں جڑے ہوئے تھے جس کے اثرات تمام شعبہ ہائے زندگی میں 
محسوس کئے جاتے تھے‘ اب زندگی کی دوڑ تیز ہوگئی ہے اور ہر کوئی الگ الگ سمت میں دوڑ رہا ہے جس سے لوگوں کے درمیان فاصلے بڑھتے ہی چلے جار ہے ہیں۔ایک اور مقام پر بیان کرتے ہیں کہ بندے کا بندے سے تعلق ضروری ہے چاہے اسے پتہ ہو چاہے نہ پتہ ہو ‘ کسی سے چاہے کتنی ہی نفرت کرلیں لیکن تعلق کا ایک دائرہ ہمیشہ آپ کے گرد کام کرتا رہتا ہے اور آپ کو تقویت فراہم کرتا رہتا ہے جبکہ آپ اکیلے اپنے کو اتنی تقویت نہےں بخش سکتے کبھی بھی آپ اپنے بوٹ کے تسمے خود کھینچ کر اپنے آپ کو ہوا میںنہےں اٹھا سکتے کوئی بندہ آپ کو ’جپھی‘ ڈال کے اونچا اٹھا سکتا ہے ‘اس اقتباس کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ ہر انسان دوسرے جڑا ہوا ہے اور کوئی بھی اپنی تمام ضروریات کو خود پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا بلکہ دوسروں کی مدد سے اس کی زندگی کی گاڑی رواں دواں ہے اس کا احساس ہر لمحے ہونا چاہئے کہ ہمارے آس پاس ہر فرد اہم ترین ہے۔