نعمتوں کا مجموعہ

مشہور معالج اور کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر حفیظ اللہ اپنی ایک تحریر میں انسانی جسم کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جب تک بدن کے تمام حصے معمول کے مطابق کام کرتے ہیں انسان کو ان کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا۔انسانی جسم بلاشبہ قدرت کا ایک معجزہ ہے۔ اس بات سے ڈاکٹر ہی نہیں۔ انسانی جسم کی ساخت ، کارکردگی اور فعالیت کے بارے میں سوچنے والے بھی متفق ہیں۔ اسی انسانی جسم سے کوئی مائع یا ٹھوس رطوبت خارج ہوجائے تو اس کی بدبو نہایت خراب اور ناخوشگوار ہوتی ہے۔ جبکہ یہی رطوبت جسم کے اندر موجود ہو۔ تو انسانی جسم سے کوئی ناگوار بدبو نہیں آتی۔مہد سے لحد تک انسانی جسم فعال رہتا ہے۔ وہ خوراک کو ہضم کرتا ہے۔ اپنا کام نہایت حسن و خوبی سے انجام دیتا رہتا ہے۔ ذرا سوچئے کہ انسانی جسم سے خارج ہونے والی رطوبت کی طرح اس کے بدن سے بھی بدبو آرہی ہوتی۔ تو لوگ کیسے ایک دوسرے کے قریب رہتے۔ ایک ساتھ کام کرتے۔ اورکیسے میل میلاپ ہوتا۔رب کریم نے قرآن مجید میں انسان سے سوال پوچھا ہے کہ وہ اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائے گا۔خالق نے ہمیں کن کن نعمتوں سے نوازا ہے ان کا حساب لگانا مشکل ہے۔ انہوں نے ہمیں سوچنے کے لئے ذہن، سننے کو کان، سونگھنے کو ناک، بات کرنے کو زبان، چلنے کو پیراور دوسرے انسانوں سے تعلق پیدا کرنے کا فن عطا کیا۔ ان نعمتوں کے ساتھ ہمیں اپنے خالق کا شکرگذار ہونا چاہئے کہ انہوں نے ہمارے جسم کو خوبصورت سانچے میں ڈھالا۔ جو واقعی قدرت کی تخلیق کا شاہکار ہے۔ انسان جب تک زندہ ہے اس کا جسم تمام فاضل مواد کو اپنے اندر سمودیتا ہے۔ اور کوئی ناگوار بدبو جسم سے خارج نہیں ہوتی۔ جونہی جسم سے جان نکل جاتی ہے تو چند ہی گھنٹوں کے اندر لاش سے ناقابل برداشت بدبو آنی شروع ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جان نکلنے کے بعد لاش کو زیادہ عرصہ نہیں رکھا جاتا اور اسے زمین کے اندر کافی گہرائی میں دفن کیا جاتا ہے تاکہ لاش کے سڑنے سے پیدا ہونے والی بدبو سے معاشرہ محفوظ رہے۔ انسان کئی صدیوں سے خالق کائنات کی اس تخلیق پر تحقیق میں مصروف ہے۔ انسانی جسم کے کام کرنے کے نظام سے متعلق بہت سے حقائق معلوم ہوچکے ہیں لیکن ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے۔ انسانی جسم کا ہرعضو تخلیق کا بہترین شاہکار ہے۔ ہم اپنی خوراک میں بہت سی چیزیں استعمال کرتے ہیں۔ ہمارا نظام انہظام اس خوراک کو کس طرح کشید کرتا ہے۔ کیسے خوراک سے خون پیدا ہوتا ہے۔ اور فاضل مواد جسم کے مخصوص حصے میں جمع ہوتا ہے اور بوقت ضرورت اسے خارج کیا جاسکتا ہے۔ یہ سب کچھ حیران کن تخلیق انسانی کا عجوبہ ہے۔انسانی جسم کا کوئی بھی عضو اگر کام کرنا چھوڑ دے تو پورا جسم متاثر ہوتا ہے۔دنیا کے مختلف حصوں میں لوگوں کی خوراک مختلف ہوتی ہے لیکن سب کا نظام انہضام ایک ہی طرح کام کرتا ہے۔خوراک میں موجود بیکٹیریا فعال ہوجاتے ہیں۔خوراک کو انسانی صحت کے ساتھ موافق بناتے ہیں۔ پھر انسانی جسم کا اندرونی نظام اس خوراک کی پراسسنگ کرتا ہے۔ جسم کو درکار پروٹین کو متعلقہ خانوں میں منتقل کرتا ہے۔ جو کچھ بچتا ہے اسے فضلے کی شکل میں معدے میں جمع کرتا ہے۔ اس عمل میں گھنٹوں لگتے ہیں۔ اگر خوراک انسانی جسم کی ضروریات سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو اس کے منفی اثرات ظاہر ہوجاتے ہیں۔قدرت کا یہ عجوبہ بلاشبہ تخلیق کا اعلیٰ نمونہ ہے جس پر انسان کو ہر وقت اپنے پروردگار کا شکرگذار ہونا چاہئے اور ان کی دی ہوئی بےشمار نعمتوں کا شکرانہ بجاتے لانا چاہئے۔شاعر مشرق نے انسانی جسم کی خوبصورت تخلیق اور اس کے کام کرنے کے طریقے کی دو جملوں میں خوبصورت انداز میںعکاسی کی ہے کہ 
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزاءکا پریشان ہونا
اس منتخب تحریر کا حاصل مطالعہ ہر کسی کو خدا کی نعمتوں کا شکر کرنے کی دعوت ہے ،خاص طور پر انسان اگر محض اپنے جسم میں موجود قدرت کی نعمتوں کااحساس کرے تو وہ کبھی مایوسی اور ناشکری کا اظہار نہیں کریگا۔