جی ابّا جی۔۔!

جب کبھی یادوں کا جھکڑ چلتا ہے تو تیز ہواﺅں کے اس شور میں جیسے کوئی میرا نام لے کر پکارتا ہے شاہد ! ۔۔۔ اور بے اختیار میرے منہ سے نکلتا ہے، جی اباّجی ۔ مگر اس کے ساتھ ہی جیسے سب کچھ تحلیل ہو جاتا ہے، ہوا کے ساتھ شور بھی تھم جاتا ہے، میرے ارد گرد کی زندگی معمول کی طرف لوٹ آتی ہے۔ گھر، دفتر، بچے، دوست، رشتہ دار سب ہوتے ہیں سوائے اس ہستی کے جس کی پکار پر میں جی ابّا جی کہہ کر اس کے روبرو ہونا چاہتا ہوں‘مرحوم والد چوہدری غلام رسول ساہی کی یادوں کا یہ سلسلہ بے اختیار ہوتا ہے۔ آج اس یادزار میں 2007کا سال اور دسمبر کی 18 تاریخ کا سورج چمک رہا ہے۔ یہ عیدالاضحی کا دن تھا اور سوئے اتفاق کہیے کہ یہی میری سرکاری تعطیلات کا آخری دن تھا۔ میں نمازِ عید اور قربانی سے فارغ ہو چکاتھا اور افریقی ملک لائبیریا واپسی کی تیاریوں میں مصروف تھا، جہاں میں اقوامِ متحدہ کے ایک امن مشن پر تعینات تھا اور چھٹیوں پر گھر آیا ہوا تھا۔ میری فلائٹ راولپنڈی سے تھی اور امی اور بڑے بھائی محمد زاہد نے راولپنڈی ایئرپورٹ تک میرے ساتھ جانا تھا۔ اس موقع پر اباّجی نے بھی کچھ دور ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کی۔ اباجی ڈسکہ شہر کی حد تک مجھے الوداع کہنے آئے اور بڑی شفقت سے مجھے رخصت کیا۔میں لائبیریا آگیا اور زندگی نے مجھے بے پناہ مصروفیات اور ذمہ داریوں کی ڈگر پر ڈال دیا۔ تاہم اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ میں ان یادوں سے بھی اپنی تنہائیوں اور حوصلوں کی آبیاری کرتا رہا جو میری متاعِ حیات ہیں اور جن کا ہاتھ تھام کر کبھی کبھی میں اپنے بچپن کے اس دور میں چلا جاتا تھا جہاں ابّاجی کے لئے ہم تمام بہن بھائیوں کی تعلیم ان کی اوّل ترجیح تھی۔ خوش گوار سردیوں کی خاموش راتیں آج بھی میرے خانہ خیال میں جگمگا رہی ہیں۔ ابّاجی رضائی میں ہوتے ، امی جی ان کے لئے چائے لاتیں جبکہ ہم بہن بھائی ان کے گرد جمگٹھا کی شکل میں بیٹھے ہوتے۔ ابّاجی باتوں ہی باتوں میں ہمیں انگریزی ٹینسز سمجھانے کے علاوہ گرائمر سے متعلق درجنوں کارآمد باتیں بتاتے ۔ اس دوران ابّا جی کی چائے کا پیالہ اکثر خالی ہوجاتا اور وہ امّی جی سے دوسرے پیالے کی فرمائش کرتے، جو کبھی پوری ہوتی، اور کبھی ادھوری رہ جاتی۔ ابّاجی کے سمجھانے کا انداز اس قدر دلچسپ ہوتا کہ پہروں ان کے پاس سے 
اٹھنے کا جی نہیں کرتا۔مجھے کرکٹ کا شوق تھا مگر میٹرک کے امتحانات سر پر تھے۔ ایسے میں ابّا جی نے پیار بھرا حکم دیا کہ پہلے امتحان پھر کرکٹ کا میدان۔ میں حسبِ ہدایت پڑھائی میں مشغول ہوگیا۔ ابّاجی سراپا محبت تھے، ایک ایسا سراپا جس میں محبت کی شدت و حدت ایک خوبصورت امتزاج میں ڈھل گئی تھی، اس امتزاج کو محسوس تو کیا جا سکتا تھا مگر الگ الگ کرنا ناممکن تھا۔ اباجی میں ایک بات ایسی تھی جس کا ذکر ہم بھائی اکثر کرتے اور وہ بات یہ تھی کہ اباجی اپنی بیٹیوں سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔بات میری لائبیریا روانگی سے شروع ہوئی اور پھر اباجی کی یادوں کی ہمرکابی میں 10 مئی 2008 تک آ پہنچی۔ اس روز مجھے بڑے بھائی محمد زاہد نے کال کر کے بتایا کہ ابّاجی دنیا میں نہیں رہے۔ یہ اطلاع میرے لیے 
ایک سوال بن گئی۔ چند روز پہلے ہی تو امّی نے ابّاجی کی صحت کے حوالے سے سب اچھا ہے کی خبر سنائی تھی۔ پھر یہ سب کیسے ہوگیا؟ چند روز پہلے جو کچھ انہوں نے بتایا تھا وہ بھی سچ تھا اور آج جو کچھ میں سن رہا تھا وہ بھی ایک تلخ حقیقت تھی۔ پھر یاد آیا کہ ابّا جی کی مجھے ڈسکہ کی حد تک الوداع کرنے کو آنے کی معصومانہ فرمائش نما خواہش کے بارے میں سوچتا ہوں تو کھلتا ہے کہ شاید انہیں محسوس ہوتا تھا کہ یہ ان کی مجھ سے آخری ملاقات ہے۔ یہ ان کا اپنے بیٹے کے ہمراہ آخری سفر ہے۔ میں اور میرے سینئر میجر ماجد فاروقی ، جو میرے ساتھ ہی تعینات تھے، نے بڑی کوشش کی کہ مجھے لائبیریا سے فلائٹ مل جائے اور میں جنازے میں شرکت کر سکوں مگر میری خواہش کو رضائے الہی کی تائید حاصل نہ ہو سکی۔ آج ابّاجی کو ہم سے جدا ہوئے برسوں بیت چکے ہیں مگر میری زندگی کا کوئی لمحہ ان کی یاد سے خالی نہیں۔جب کسی سفر کےلئے پابہ رکاب ہوتا ہوں تو ابّاجی کی کراچی سے واپسی کا واقعہ یاد آجاتا ہے۔ 
وہ کچھ دنوں کے لئے میرے پاس آئے اور واپسی پر میرا خرچ بچانے کے لئے مجھے کہنے لگے کہ میں ٹرین پر سفر کرنے سے زیادہ خوش ہوتا ہوں، مجھے جہاز کا سفر پسند نہیں ہے۔جس طرح والدین اپنی اولاد کو سمجھتے ہیں، اسی طرح اگر اولاد اپنے والدین کو سمجھنا چاہے تو پھر اس پر بہت کچھ روشن ہو جاتا ہے۔ میں فورا ًبات کی تہہ تک پہنچ چکا تھا کہ ابّاجی جہاز پر ٹرین کو ترجیح صرف اور صرف اس لیے دے رہے ہیں کہ میری جیب پر بوجھ نہ پڑے۔ جب کہ میں تو اسے اپنے لیے سعادت سمجھ رہا تھا کہ اباجی بذریعہ ہوائی جہاز روانہ ہوں۔ سو میں نے منت سماجت ہی سے سہی، ابّاجی کو راضی کر لیا کہ وہ واپسی کے لئے ہوائی سفر اختیار کریں۔ ابّاجی محکمہ تعلیم سے ریٹائرڈ تھے، اور اپنی پنشن وصول کرنے ہر ماہ ڈسکہ سے گجرانوالہ جاتے تھے۔ ہمارے بارہا اصرار پر بھی انہوں نے اپنی پنشن کو ڈسکہ منتقل نہیں کروایا۔ وہ کہتے تھے کہ ہم تمام ریٹائرڈ دوست اس دن اکٹھے ہوتے اور باہم مل کر اگلے ایک ماہ کے لئے تر و تازہ ہو جاتے ہیں۔ اپنی وفات سے ایک ماہ پہلے یعنی اپریل 2008 میں انہوں نے اپنی پنشن ڈسکہ ٹرانسفر کرا لی، جب کہ ہم بہن بھائیوں میں سے کسی نے بھی اس بارے میں ان سے اصرار نہیں کیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور انہونی یہ ہوئی کہ اپریل ہی میں وہ اپنے تمام پرانے دوستوں سے ملے اور اگر کسی دوست سے کوئی شکر رنجی تھی تو اس کو بھی دور کیا۔ والدہ صاحبہ نے مجھے بتایا کہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ میرا فوجی بیٹا جو مجھے دو دفعہ جی کہتا ہے، اس کی پاکستان واپسی میں کتنا عرصہ رہ گیا ہے؟۔ یعنی وہ شدت سے میرا انتظار کر رہے تھے، مگر شاید قسمت کو ہماری ملاقات منظور نہ تھی۔۔آج جب ہر طرف عید الاضحی کی تیاریاں زور و شور پر ہیں، میرے آنکھوں کے سامنے ابّاجی سے آخری ملاقات کا منظر گھوم رہا ہے۔ ساتھ ہی میرے دل میں ابّاجی کے جنازے میں شرکت نہ کرسکنے کی کسک ایک ٹیس کی طرح اٹھتی ہے۔ میں نے اپنی ایک بیٹی کا نام ابّاجی کی نسبت سے عائشہ رسول رکھا ہے ۔ میری یہ بیٹی پابندیِ وقت اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ہو بہو اپنے دادا کا نقش ثانی ہے۔ میں ہمیشہ اس کو پورا نام لے کر مخاطب کرتا ہوں جس سے نہ صرف میرے دل کو تسکین ملتی ہے بلکہ یو ں محسوس ہوتا ہے جیسے اس نے جواب میں کہا ہو جی ابّاجی۔