شہر اور گاﺅں کافرق 

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
جوں جوں کوئی شہر پھیلتا جاتا ہے اس کی عمارات ‘ بھیڑ ‘گرد وغبار میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے یہی نہیں ٹریفک بھی وبال جان بن جاتا ہے ۔مگر ہم نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی اب تو بڑے شہر چاروں اور پھیل چکے ہیں جس سے بے پناہ مسائل جنم لے رہے ہیں ہمارے یہاں لاہور کی دھول اور ٹریفک سے نجات حاصل کرنا آسان نہیں لیکن پھر بھی موقع ملتے ہی میں فطرت کے حقیقی حسن کی تلاش میں لاہور سے نکل پڑتا ہوں‘اگرچہ ہمارے گاﺅں اور مضافات بھی زندگی کی جدید سہولیات سے آراستہ ہو چکے ہیںاور اب توگاﺅں میں بھی کچے مکانات ‘کنویںکم کم ہی نظر آتے ہیں لیکن پھر بھی بعض علاقوں میں اب بھی فطرت کا جوبن دیکھا جاسکتا ہے‘مجھے وقت میسر آئے تو لاہور کی دھواں آلود فضا سے دور ہونے کی کوشش کرتا ہوں‘کبھی ویک اےنڈ پر بھی کسی علاقے میں جانے کا موقع مل جاتا ہے‘اس بار تو گرمیوں کی چھٹیاں بھی تھیںسو ہم نے لاہور سے اڑان بھری اور راولپنڈی‘ہری پور‘ہزارہ اور ایبٹ آباد کے آس پاس کے سر سبز و شاداب خطوں میں وقت گزارنے کا موقع ملا جہاں پہنچ کر دل کی کیفیات تبدیل ہو جاتی ہیں‘ ہر طرف شادابی‘ انسانی احساسات کو بھی ترو تازہ کر کے رکھ دیتی ہے‘میرا دل تو ایسے ’ بہاریا ‘ماحول میں بہت سکون محسوس کرتا ہے۔ شہروں سے دور پھولوں کے ایسے چمن اور شادابیاں بکھری پڑی ملتی ہیں۔ہری پور ہزارہ جائیں تو جگہ جگہ شادابی دکھائی دیتی ہے۔موٹروے اور سی پیک کی سڑکوں کی تعمیر سے ٹریفک کی سہولیات بھی بہتر ہورہی ہے۔ خیبرپختونخوا کی حکومت کے کچھ اچھے اقدامات کی لوگ برملا تعریف بھی کرتے ہیں نوجوان بلال نے بتایا کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے سکولوں کالجوں کی حالت بہت بہتر ہوئی ہے‘اب ہر مرض کا ماہر ڈاکٹر بروقت سرکاری ہسپتالوںمیںموجود نظر آتا ہے۔ہر شخص سرکاری پرچی کی فیس سے کسی بھی سپیشلسٹ ڈاکٹر سے علاج کرا سکتا ہے‘سکولوں میں اساتذہ کی حاضری اور پڑھائی میں بھی بہتری آئی ہے‘ ہم تو فطرت اور بہار کو یاد کر رہے تھے‘ ہمارے سامنے پھول ہی پھول تھے جن پر ہلکی ہلکی بوندا باندی پرایک خواب آور سماں معلوم ہوتا ہے جنوبی پنجاب سے آئے ہوئے سرفرازبلوچ نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں تو ابھی سے شدید گرمی شروع ہوگئی ہے جبکہ یہاں تو اچھی خاصی خنکی ہے۔ہمارے ہاں تو لوگ بارش کو ترستے رہتے ہیں جس پر ایک بزرگ بولے ایک زمانے میں جب بارش نہیں ہوتی تھی تو ہم مساجد میں بچوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے یہ کوئی خیرات نہیں ہوتی تھی بلکہ سارے گاﺅں کے گھر وں سے مانگی ہوئی ہر قسم کی روٹی لسی ‘اچار‘چٹنی اور دال ساگ کی خوراک ہوا کرتی تھی‘بچوں کو مسجد میں بلا کر یہ کھانا کھلایا جاتا تھا ایسا کرنے سے شام تک بادل چھا جاتے تھے بعض اوقات کسی سخت مزاج خاتون یا مر د پر گھڑوں سے پانی پھینکنے کا رواج بھی تھا‘جس پر پانی پھینکا جاتاوہ غصے میں آجاتا ‘ گاﺅں کی بڑی اچھی روایات ہوتی تھیں گاﺅں کی مساجد میں مسافروں کے ٹھہرنے کا انتظام بھی ہوتا تھا‘باہر سے آنےوالے مسافر کےلئے کھانے پینے کا بندوبست بھی نہایت خلوص سے کیا جاتاتھا‘گاﺅں کے سارے کام فصلوں کی کٹائی گہائی سب مل جل کر ہوتے تھے‘ہر آفت مصیبت پر گاﺅں کے لوگ یکجا ہوجاتے تھے‘اب تو انہی گاﺅں میں بھی شہر کی طرح لوگوں میں فاصلے بڑھنے لگے ہیں۔تاہم پھر بھی شہر اور گاﺅں کافرق موجود ہے ۔