قابل تقلید مثالیں

تاریخی واقعات کا شاہد ہونا الگ بات ہے اور ان واقعات کو قلمبند کرکے ان کو اگلی نسلوں کیلئے محفوظ کرنا دوسری بات ہے ۔ اور موخر الذکر اس حوالے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ اس میں ایک واقعے کی گواہی دینا اور اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کو اس کو اس طرح قلمبند کرنا ہے کہ اس واقعے کے حقیقی رنگ کے ساتھ ساتھ پڑھنے والے اس میں لکھنے والے کے مشاہدے اور اس واقعے کے ساتھ جذباتی وابستگی کو بھی بخوبی محسوس کرے۔ معروف براڈکاسٹرآغا ناصر ان شخصیات میں سے ہیں جنہوںنے ایک عہد کی اہم ترین شخصیات کا قریب سے مشاہدہ کیا ، ایک جلسے کی روداد میں معروف براڈ کاسٹر آغاناصر لکھتے ہیں ‘لیاقت علی خان کرنال کی چھوٹی سی ریاست کے نوابوں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے صورت شکل اور وضع قطع سے بھی نوابی ٹھاٹ کے آدمی لگتے تھے پستہ قد تھے مگر رنگ کھلتا ہوا تھا آواز گرجدار تھی مگر لہجہ بہت مہذب تھا قائداعظم سے ان کی قربت صرف خلوص اور اعتماد کی ڈوری سے بندھی ہوئی تھی حصول پاکستان کی جنگ میں ایسے لوگ جو قائداعظم کے ہر اول دستہ میں شامل تھے ان میں شاید سب سے زیادہ اہم نام خان لیاقت علی خان کا ہے ۔‘1951ءمیں نوابزادہ لیاقت علی خان جب خصوصی مہمان کے طور پر امریکہ گئے تو اس میں ہر طرح کی تنقید کی گئی جس میں یہ بھی شامل تھا کہ انہوں نے امریکہ کے دورے کے لئے دو سوٹ سلوائے جن کی ادائیگی حکومت کے خزانے سے کی گئی تھی۔ اس بات پر عوام کو بہت غصہ تھا لہٰذا ساری طلبہ تنظیموں نے سخت احتجاج کرنے کا پروگرام بنالیا تھا۔14اگست1951ءوالے جلسے میں‘ میں بھی اپنے بہت سے کالج کے ساتھیوں کے ساتھ شریک تھا۔
وزیر اعظم نے بالکل آغاز ہی میں اپنے اوپر کی جانے والی تنقید کا ذکر کیا اور اس الزام کی پر ز ور تردید کی کہ انہوں نے سرکای خرچ پر امریکہ جانے کے لئے سوٹ سلوائے ہیں۔ انہوں نے کہا کراچی میں میرا ایک درزی ہے جس کا نام عزیز ٹیلر ہے اور جو ہندوستان کے زمانے سے میرے کپڑے سیتا چلا آ رہا ہے اسی نے میرے سوٹ سیئے تھے ہمیشہ کی طرح ان سوٹوں کے اخراجات کی ادائیگی بھی میں نے اپنی جیب سے کی ہے۔پھر ذرا ٹھہر کر انہوں نے جلسہ گاہ کی طرف دیکھا اور باآواز بلند عزیز ٹیلر کا نام پکارا۔ ذرا سی دیر میں ایک چھوٹے قد کا آدمی سٹیج پر آیا ¾وزیر اعظم نے اس سے کہا کہ میری بات کی تصدیق کرو ¾عزیز نے مائیکرو فون کے سامنے آکر اپنی کمزور سی آواز میں کہا” میں عزیز ٹیلر ہوں ¾ یہاں پیراڈائز سینما کے سامنے میری دکان ہے ¾ میں انڈیا کے زمانے سے نواب صاحب کے کپڑے سیتا آیا ہوں ¾ اس بار بھی یعنی امریکہ جانے سے پہلے انہوں نے مجھ سے دو سوٹ سلوائے ¾ جس میں سے ایک کی مکمل ادائیگی نواب صاحب نے کردی ہے اور دوسرے کے ابھی آدھے پیسے ملے ہیں ¾ہمارے ساتھ نواب صاحب کا اسی طرح کا حساب ہے“۔اس زمانے میں اس طرح کی باتیں معیوب نہیں سمجھی جاتی تھیں ¾ لوگوں نے بے تحاشا تالیاں بجائیں اور لیاقت علی خان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ایک بار کہ جب کسی میٹنگ میں صدر ایوب نے کوئی تقریر کی اور میں نے ایڈٹ کرتے وقت اس کے وہ فقرے نکال دیئے جو انہوں نے اس سے ایک روز پہلے کسی اور تقریر میں بھی کہے تھے‘ مجھے اپنے ریجنل ڈائریکٹر کی طرف سے پیغام ملا کہ صدر صاحب نے اس پر خفگی کا اظہار کیا ہے۔ اگلے روز مجھے ان کی کسی تقریب میں ریکارڈنگ کے لئے جانا تھا انہوں نے تقریر کے بعد مجھے بلایا اور کہا پرسوں آپ نے میری تقریر کے وہ اہم حصے نکال دیئے جو بڑے ضروری تھے ؟ میں نے کہا ۔سر تقریر لمبی تھی اور مجھے 29منٹ تیس سیکنڈ کی بنانا تھی میں نے وہ حصہ اس لئے نکال دیا کہ ایک روز پہلے آپ کی ایک تقریر میں شامل کرچکا تھا انہےں میری بات سمجھ میں آگئی مسکرائے اور بولے یہ تمہارا مسئلہ ہے کہ تقریر کو وقت کی قید میں کس طرح لاتے ہو مگر میں نے ایک بات اگلے دن پھر دہرائی ہے تو اس کی کوئی ضرورت رہ گئی ہوگی وہ حصہ تم کو نکالنا نہےں چاہئے تھا “ ان دو منتخب اقتباسات کا حاصل مطالعہ اہم شخصیات کے قابل ذکر رویوں کا تذکرہ ہے جن میںسیکھنے کیلئے بہت کچھ ہے۔