خودساختہ مسائل

مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد اپنی ایک نشری تقریر میں بیان کرتے ہیں کہ ہم بڑی دیر سے ایک عجیب طرح کے عذاب میں مبتلا ہیں‘ ہمیں بار بار اس بات کا سندیسہ دیا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں نشے کی عادت بہت بڑھ گئی ہے اور ڈاکٹر و والدین دونوں ہی بڑے فکر مند ہیں اور والدین دانشور لوگوں سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ اس کے قلع قمع کے لئے کچھ کام کیا جائے‘ میں نے بھی ایک سوسائٹی کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا مطالعہ کیا‘ اس تحقیق کے دوران جو میں نے ایک عجیب چیز نوٹ کی وہ یہ کہ ایک اور قسم کا نشہ بھی ہے اور آپ مجھے اس بات کی اجازت دیں کہ میں اسے نشہ کہوں کیونکہ وہ ہماری زندگیوں پر بہت شدت کے ساتھ اثر انداز ہے‘ اس نشے کو ہم نے وطیرہ بنا لیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک سٹریس نہیں لیں گے اس وقت تک ہم نارمل زندگی بسر نہیں کرسکتے‘ آپ محسوس کریں گے کہ اس نشے کو ترک کرنے کی اس نشے سے بھی زیادہ ضرورت ہے‘ میں ایک بار کچہری گیا‘ ایک چھوٹا سا کام تھا اور مجھے باقاعدگی سے دو تین دن وہاں جانا پڑا‘ کئی سیڑھیاں چڑھ اور اتر کر میں اس نتیجہ پر پہنچا کر بہت سے میری عمر سے بھی زیادہ عمر کے بابے کچہری میں بنچوں کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں اور مقدمے لڑے رہے ہیں‘ میں نے اپنی عادت کے مطابق ان سے پوچھا کہ آپ کیسے آئے ہیں‘ کہنے لگے جی ہمارا مقدمہ چل رہا ہے‘ میں نے کہا کب سے چل رہا ہے‘ ایک بابے نے کہا کہ پاکستان بننے سے دو سال پہلے سے چل رہا ہے اور ابھی تک چلا جارہا ہے‘ میں نے کہا کہ مقدمہ کس چیز کا ہے‘ اس نے بتایا کہ ہماری نو کنال زمین تھی اس پر کسی نے قبضہ کرلیا ہے‘ میں نے کہا آپ دفع کریں‘ چھوڑیں اس قصے کو‘ وہ کہنے لگا کہ جی خدا کے فضل سے بچوں کا کام بڑا اچھا ہے اور میں اس کو دفع بھی کردوں لیکن اگر مقدمہ ختم ہوجائے تو میں پھر کیا کروں گا‘ مجھے بھی تو ایک نشہ چاہئے‘ صبح اٹھتا ہوں کاغذ لے کر وکیل صاحب کے پاس آتا ہوں اور پھر بات آگے چلتی رہتی ہے اور شام کو میں گھر چلا جاتا ہوں‘ اس بابے کی بات سے میں نے اندازہ لگایا کہ ہمارے ہاں تو اس نشے نے خوفناک صورتحال اختیار کرلی ہوئی ہے‘ سکولوں میں ماسٹروں‘ گھروں میں عورتوں اور دفتروں میں صاحبوں کو یہ نشہ لگا ہوا ہے‘ جسے دیکھیں وہ پریشانی کے عالم میں ہے اور کسی نے اس نشے کو چھوڑنے کی کوشش کرنے کی بھی کبھی زحمت گوارہ نہیں کی‘ اگر کسی یوٹیلیٹی بل کے آخری تاریخ 17 ہے تو اسے چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی دو دن پہلے بھی ادا کرسکتے ہیں لیکن ہم نے اپنے آپ کو صرف فشار کے حوالے کر رکھا ہے‘ اس دکھ سے ہمیں نکلنا پڑے گا‘ تیسری دنیا اور بطور خاص ہم پاکستانی اس قدر دکھ کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں‘ جیسے ہمیں اس کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں رہا“اس منتخب تحریر کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ ہم بہت سے معاملات سے صرف نظر کر سکتے ہیں اور یوں اپنے مسائل میں کمی لا سکتے ہیں تاہم اکثر ایسا کرنے سے گریزاں ہیں اور ایسے معاملات میںاپنے آپ کو مصروف رکھتے ہیں جن میں ملو ث ہونے سے خود ہمارے لئے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں اور پھر ان مسائل کے حل میں ہم جت جانے میں اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں حالانکہ شروع میں ہی صرف نظر کرکے ان سے بچا جاسکتا تھا۔ اور یہ رجحان کسی ایک فرد تک محدود نہیں بلکہ پورے معاشرے پر یہ چھایا ہوا ہے جس کسی کو دیکھو تو وہ ان معاملات میں پھنسا ہوا ہے جس کے ساتھ اس کا سروکار ہی نہیں اس طرح دو مضمرات سامنے آتے ہیں ایک تو غیر متعلقہ معاملات میں ٹانگ اڑانے سے وقت اور توانائی کا ضیاع ہوتا ہے تو ساتھ ہی مسائل ختم ہونے کی بجائے زیادہ ہونے لگتے ہیں اور معاملات سلجھنے کی بجائے الجھاﺅ کی طرف چلے جاتے ہیں۔اگر ہم میں سے ہر کوئی یہ تہیہ کرلے کہ وہ اپنے آپ کو ترجیحی طور پران معاملات تک محدود رکھے گا کہ جن کا تعلق براہ راست اس سے ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ہاں پائے جانے والے بہت سے مسائل خودبخود حل نہ ہوں۔