ایک ملاقات کا تذکرہ

 قدرت اللہ شہاب علامہ اقبال کے ملازم علی بخش سے اپنی ہونے والی ملاقات کا احوال بےان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’میں نے عزم کر رکھا تھا کہ میں خود علی بخش سے حضرت علامہ کے بارے میں کوئی سوال نہیں کرونگا اگر واقعی وہ علی بخش کی زندگی کا ایک جزو ہیں تو یہ جوہر خود بخود عشق اور مشک کی طرح ظاہر ہو کے رہے گا‘ میری توقع پوری ہوتی ہے اور تھوڑی سی پریشان کن خاموشی کے بعد علی بخش مجھے یوں گھورنے لگتا ہے کہ یہ عجیب شخص ہے جو ڈاکٹر صاحب کی کوئی بات نہیں کرتا‘ شیخو پورہ سے گزرتے ہوئے علی بخش کو یاد آتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک بار یہاں بھی آئے تھے یہاں پر ایک مسلمان تحصیلدار تھے جو ڈاکٹر صاحب کے پکے مرید تھے انہوں نے دعوت دی تھی ڈاکٹرصاحب کو پلاﺅ اور سیخی کباب بہت پسند تھے آموں کا بھی بڑا شوق تھا وفات سے کوئی چھ برس پہلے جب ان کا گلا پہلی بار بیٹھا توکھانا پینا بہت کم ہوگیا ۔ علی بخش کا ذہن بڑی تیزی سے اپنے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے اور وہ بڑی سادگی سے ڈاکٹر صاحب کی باتیں سناتا جاتا ہے ان باتوں میں قصوںاور کہانیوں کا رنگ نہیں بلکہ ایک نشے کی سی کیفیت ہے جب تک علی بخش کا یہ نشہ پورانہیں ہوتا غالباً اسے ذہنی اور روحانی تسکین نہیں ملتی علی بخش کا موڈ بدلنے کے لئے میں بھی اس سے ایک سوال کر ہی بیٹھتا ہوں حاجی صاحب کیا آپ کو ڈاکٹر صاحب کے کچھ شعر یاد ہیں ؟ علی بخش ہنس کرٹالتا ہے میں تو ان پڑھ جاہل ہوںمجھے ان باتوں کی بھلا کیا عقل ‘میں نہیں مانتا؟ میں نے اصرار کیا آپ کو ضرور کچھ یاد ہوگاکبھی اے حکیکت منتجر والا کچھ کچھ یاد ہے ڈاکٹر صاحب اس کو خود بھی بہت کنگنایا کرتے تھے ‘ڈاکٹر صاحب بڑے درویش آدمی تھے گھر کے خرچ کا حساب کتاب میرے پاس رہتا تھا میں بھی بڑی کفایت سے کام لیتا تھا انکا پیسہ ضائع کرنے سے مجھے بڑی تکلیف ہوتی تھی اکثر اوقات ریل کے سفر کے دوران میں کئی کئی سٹیشن بھوکا رہتا تھا کیونکہ وہاں روٹی مہنگی ملتی تھی لیکن ڈاکٹر صاحب ناراض ہو جاتے تھے کہاکرتے تھے علی بخش انسان کو ہمیشہ وقت کی ضرورت کے مطابق چلنا چاہئے خواہ مخواہ ایسے ہی بھوکے نہ رہاکرو ۔ایک اور مقام پر قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ وطن کی آزادی کے وقت پنجاب میں بجلی سے چلنے والی کھڈیوں اور آرٹ سلک کی گرم بازاری تھی ‘پاور لوم کے پرمٹ مانگنے والوں کا زیادہ زور پانچ پانچ پاور لوم حاصل کرنے پر تھا اس کےساتھ انہےں کافی مقدار میں آرٹ سلک یارن کا امپورٹ لائسنس مل جاتا تھا ‘ جسے بلیک مارکیٹ کرکے خاطر خواہ منافع کمایا جاسکتا تھا کچھ لوگ تو پاور لومز کاپرمٹ بھی دست بدست بلیک مارکیٹ میں بیچ ڈالتے تھے معدودے چند لوگ جو اپنے پاور لوم خود چلانا چاہتے تھے ۔ وہ بھی اپنی مشینوں کی تعداد پانچ سے زیادہ نہ بڑھاتے تھے کیونکہ اس طرح وہ فیکٹری ایکٹ کی پابندیوں سے آزاد رہتے تھے وزیرصاحبان جب دوروں سے واپس آتے تو انکے جلو میں پرمٹ لینے والوں کا ایک جم غفیر لاہور پہنچ جاتا تھا اور وزیروں کی سفارشات سے مزین درخواستیں لےکر میرے دفتر کا گھیراﺅ کرلیتا تھا اس سارے عرصہ میں فقط ایک پرمٹ ایسا تھا جومیں نے اس قسم کی سفارش یا دباﺅ کے بغیر جاری کیا تھا ایک روز ہمارے ممتاز ادیب اور دانشورمسٹر اے حمید مجھے ملنے آئے ‘پاور لوم کی کرشمہ سازی کا چرچا سن کر انہےں بھی اس لائن میں قسمت آزمائی کا خیال آیا میں نے بڑی خاموشی سے انہےں پرمٹ دے دیا دوڈھائی ماہ بعد وہ پھرمیرے دفتر آئے اور بولے اس کاروبار کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ کام میرے بس کا نہےں ہے یہ کہہ کر انہوں نے پرمٹ مجھے واپس کردیا اسکی دلنشین تحریروں کی طرح اس صاحب طرز ادیب کا کردار بھی اتنا صاف اور بے داغ تھا کہ اس نے اپنے پرمٹ کو بلیک مارکیٹ میں بیچنا بھی گوارانہ کیا۔“ ان منتخب اقتباسات کا حاصل مطالعہ کردار کی بلندی اور مضبوطی ہے جو کسی بھی شخص کا اصل اثاثہ ہوتا ہے۔