صرف تنقید کافی نہےں

مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد اپنی ایک نشری تقریر میں بیان کرتے ہیں کہ ہمارے گھر میں ایک راستہ جو چھوٹے دروازے سے ڈرائنگ روم میںکھلتا ہے اور پھر اس سے ہم اپنے گھر کے صحن میں داخل ہوتے ہےں ‘بارشوں کی وجہ سے وہ چھوٹا دروازہ کھول دیا گیا ‘تاکہ آنے جانے میں آسانی رہے آسانی تو ہوئی ‘لیکن اس میں ایک پیچیدگی پیدا ہوگئی وہ یہ کہ باہر سے جو جوتے آتے تھے‘ وہ کیچڑے سے لتھڑے ہوئے ہوتے تھے اور باوجود کوشش کے اور انہےں صاف کرنے کے ‘کیچڑ تو اندر آہی جاتا تھااور اس سے سارا قالین خراب ہوجاتا تھا‘میں چونکہ اب تیزی سے بوڑھا ہورہا ہوں اور بوڑھے آدمی میں کنٹرول کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے تو مےں چیختا چلاتا تھا اور ہر آنےوالے سے کہتا کہ جوتا اُتار کر آﺅ اور اسے پہننے کے بجائے ہاتھ میں پکڑ کر آﺅ اس سے میرے پوتے اور پوتیا ں بہت حیران ہوتے تھے کہ اس جوتے کا فائدہ کیا جو گھر کے دروازے پر پہنچ کر اتارا جائے اور ہاتھ میں پکڑ کر گھر میں داخل ہوا جائے وہ بیچارے کوئی جواز تو پیش نہےں کرتے تھے لیکن جوتے اتارتے بھی نہےں تھے جس سے میری طبیعت میں تلخی اور سختی بڑھتی گئی اور میں سوچتا تھا کہ یہ مسئلہ صرف اسی طرح سے ہی حل ہوسکتا جس طرح میں سوچتا ہوں میری بہو نے کوئی اعتراض تو مجھ پر نہےں کیا اور نہ ہی اس نے مجھے کوئی جواب دیا وہ شام کو بازار گئی اور اس نے دو میٹ خریدے ایک تاروں کا بنا ہوا اور دوسرا موٹا بالوں والا‘اب جب تاروں کے میٹ سے پاﺅں رگڑے جاتے تو وہ ’رندے‘ کی طرح صاف کردیتا اور پھر موٹے بالوں کا موٹا دبیز میٹ مزید صفائی کردیتا تھا یہ بعد میں رکھا گیا تھا جب میں نے یہ عمل دیکھا اور میں اس پر غور کرتا رہا ‘ تو مجھے کافی شرمندگی ہوئی کہ میں جو اپنی دانش کے زور پر اپنے علم اور عمر کے تجربے پر بات کہہ رہا تھا‘ وہ اتنی ٹھیک نہےں تھی اور اس لڑکی (بہو) نے اپنا آپ اپلائی کرکے اس مسئلے کا حل نکال دیا اور ہمارے درمیان کوئی جھگڑا بھی نہےں ہوا مجھے خیال آیا کہ انسان اپنے آپ مےں تبدیلی پیدا کرنے کےلئے دوسروں پر تنقید زیادہ کرتا ہے اور خودمیں تبدیلی نہےں کرتا۔ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ یہ جو شیئرنگ ہے یہ بہت ضروری ہوتی ہےں اب آپ کو اپنی ذات کےساتھ یہ فیصلہ خود کرنا ہے اور ایسافیصلہ کرنے کےلئے ایک وقت ضرور مقرر کرنا پڑےگا جس میں آپ اپنے آپکا احاطہ کریں آپ کو شراکت کی ہلکی ہلکی لہریں نہ صرف اپنے علاقے‘ گھر یا ملک میں ملیں گی بلکہ آپ جہاں بھی چلے جائیں جہاں بھی انسان آباد ہےں اور جہاں بھی فطرت کے نظارے ہےں وہ نظارے اور فضائیں آپکو اپنے ساتھ شیئرنگ کرتی ہوئی ہی ملیں گی آپ مری‘بھوربن کیوں جاتے ہےں؟ وہ بھوربن آپکا انتظار کررہا ہوتاہے کہ پلیز آجاﺅ بڑی دیر ہوگئی میں آپ کےساتھ کچھ شیئر کرنا چاہتا ہوں‘جب آپ وہاں سے ہوکر آجاتے ہےں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ بھوربن میرے ساتھ کچھ شیئر کررہا تھا کیونکہ آپ کا وہاں جانے کا پھر دل کرتا ہے شراکت بہت بڑی نعمت ہے جو قدرت کی طرف سے ہمیں عطا ہوتی رہتی ہے جب میں اٹلی میں تھا وہاں ایک اصول ہے کہ ہر سال ڈرائیونگ لائسنس کی جب تجدید کروائی جاتی ہے تو آپ کو ایک بار پھر ڈاکٹر کے حضور بینائی ٹیسٹ کرانے کےلئے پیش ہونا پڑتا ہے میں بھی ڈاکٹر کے پاس گیا اور اس نے کہا کہ اوپر کی لائن سے پڑھتے ہوئے چھٹی لائن تک آﺅ‘آخری لائن بڑی باریک لکھی ہوئی تھی میں نے پانچویں لائن تک تو کھٹا کھٹ پڑھ دیا لیکن جب مےں چھٹی پر آیا تو رک گیا اور میں نے ڈاکٹر سے اطالوی زبان میں کہا کہ یہ مجھ سے نہےں پڑھی جاتی تو ڈاکٹر نے کہا کہ ’پاس ‘یہ پانچ لائن پڑھنے تک کا حکم ہے یہ چھٹی تو مےں تمہےں اپنی طرف سے کہہ رہا تھا اب میں اس چھوٹے سے رشتے کو محبت کے رشتے کو کیا نام دوں لیکن اس نے میرا دل پر باش کردیا تھا اور اس کی معمولی سی محبت کی بات سے میرا دل خوشی سے بھر گیا تھا مجھے یہ بات محسوس کرکے بھی بڑی خوشی ہوتی ہے کہ بہت سے لوگوں میں بہت کچھ جانتے ہوئے اور نہ جانتے ہوئے بھی ہمارے ساتھ شیئر کیا ہے اور میں نے کسی کو کیا دیا البتہ یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس شیئرنگ کی بدولت بہت کچھ حاصل کیا۔“ ان منتخب اقتباسات کا حاصل مطالعہ اپنے ساتھ موجود لوگوں کو سمجھنا اور ان کے جذبات اور احساسات کی قدر کرنا ہے ۔