تحریک پاکستان اور خیبر پختونخوا کی بہادر خواتین

یہ وطن، یہ سوہنی دھرتی جو ہمارے پرکھوں کی طویل‘ صبر آزما جدوجہد، قربانیوں، آہوں اور دعاں کا ثمر ہے۔ اقبال کے خواب کو قائداعظم کی پر خلوص قیادت نے شرمندہ تعبیر کیا اور 27رمضان المبارک کی بابرکت اورمقدس ترین رات کو پاکستان وجود میں آیا۔ خواب کو حقیقت کا روپ دینے میں جہاں پورے برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کا عمل دخل ہے‘وہاںخیبر پختونخوا کے غیور عوام اور خواتین بھی کسی سے پیچھے نہ تھیں ‘ مردوں کیساتھ ساتھ خواتین نے بھی پر جوش کردار ادا کیا۔ یہ 1947 اور اس سے پہلے کا دور ہے جہاں خواتین سخت پردے میں رہتی تھیں۔ ایسے میں چند پڑھی لکھی خواتین ایسی بھی تھیں جنہوں نے جرا¿ت مندانہ کردار ادا کیا‘ یوں تو خواتین کے اس قافلے میں بہت سے نام شامل ہیں مگر ان میں سے دو نام ایسے ہیں جن کا تعلق میری عظیم مادرِ علمی یعنی فرنٹیئر کالج سے تھا۔ ایک مسز سردار حیدر جعفر دوسری میری عزیز ترین استاد مس فہمیدہ اختر ۔یہ 1973 کے اوائل کا ذکر ہے جب ہم نے اس عظیم الشان درس گاہ میں داخلہ لیا تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ اس کی قدیم اونچی چھت والی گیلریوں اور ستونوں والے برآمدوں سے گزر کر ہاسٹل کی طرف آتے تو دل خوشی اور فخر سے بھر جاتا کیوں کہ اس درس گاہ کو عظیم بنانے والے، پڑھانے والے بھی اپنے مقصد کے ساتھ جڑے ہوئے اہل قلم اور صاحبِ کتاب لوگ تھے ۔ اس وقت شعبہ اردوکے دو بڑے نام مسز جعفر اور فہمیدہ اختر کا تھاجنہوں نے تحریک پاکستان کو کامیاب بنانے کےلئے ان تھک محنت کی اور بے پناہ قربانیاں دیں۔ہمیں خوش قسمتی سے مس فہمیدہ اخترکی کلاس ملی ۔ بڑی بڑی آنکھیں جن سے ذہانت وزکاوت ٹپکتی ہوئی ، اتنی بڑی کلاس میں مانو سوئی گرے تو آواز آئے۔ پورے کالج میں ان جیسی بارعب شخصیت کوئی اور نہیں تھی۔ انکے برعکس مسز جعفر بہت دبنگ قسم کی خاتون تھیں۔ ان کی کلاس کی لڑکیاں ان کی بہادری اور جرت کے قصے فخر سے سنایا کرتیں کہ کس طرح انہوں نے برقعہ پہن کر چوک یادگار میں پرجوش تقریر کی۔ ان کی جوشیلی تقریر نے عوام میں جوش و جذبہ بھردیا ۔ بعد ازاں انہوں نے خود بھی اپنی کتاب میں تحریک پاکستان میں حصہ لینے والی خواتین اور اپنی دوست ساتھی مس فہمیدہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے‘فہمیدہ اخترخیبر پختونخوامیں تین حیثیتوں سے پہچانی جاتی ہیں۔تعلیم‘ادب اور سیاست ان کے والد عبدالرﺅف اپنے دور کے اہم مسلم لیگی لیڈر تھے اور مسلم لیگ کے اہم عہدوں پر فائز رہے‘ وہ صاحب علم اور روشن خیال انسان تھے۔ فہمیدہ ان کی بڑی بیٹی تھیں ۔ انہوں نے میٹرک لیڈی گرفتھ سکول سے اور ایف اے پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ان ہی دنوں پشاور میں خواتین مسلم لیگ کی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ یہ دونوں مسلم لیگ میں شامل ہوگئیں اور تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔مسز سردار حیدر جعفر لکھتی ہیں کہ مجھے مسلم لیگ کا پروپیگنڈہ سیکرٹری چنا گیا۔ تو فہمیدہ میرے ساتھ سارا وقت دفتر میں رہتی اور ہم مل کر اخباروں کے لئے رپورٹیں تیار کرتے۔ آزاد پاکستان کا ٹرانسمیٹر ہر اس گھر میں چلایا جاتا تھا جس کے دودروازے ہوتے تاکہ جب پولیس چھاپہ مارے تو دوسرے دروازے سے نکلا جاسکے ۔فہمیدہ کے گھر کے بھی دودروازے تھے۔تو ٹرانسمیٹر ان کے گھر کام کرتا اور فہمیدہ اس کے لئے رپورٹیں اورخبریں لکھتیں۔ ان کے گھر کے علاوہ میاں شریف حسین اورفقیر محمد ٹھیکیدار کے گھر تہہ خانے اور دو دروازے تھے۔انکے گھر بھی ٹرانسمیٹر کی نشریات ہوتیں۔یہ ٹرانسمیٹر پھل یا سبزی کی ٹوکری میں رکھ کر لائے جاتے۔انگریز کی حکومت میں یہ ایک سنگین جرم تھا مگر آزادی کے متوالے اس جرم کی سنگینی کو جانتے ہوے بھی اس جرم کا ارتکاب کرتے۔ لوگوں کی زبانی اور مختلف رسائل اور مضامین میں ان کے بارے میں پڑھا۔ مجھے ان کے ساتھ گزارے دو سال یاد آگئے کہ کلاس میں کسی حوالے سے اشارے کنائے سے کبھی ایک جملہ تک نہیں کہا اور کبھی بھی اپنی خدمات کو کیش نہیں کرایا ۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ... ساری عمر شادی نہیں کی درس و تدریس سے وابستہ رہیں۔ بلاشبہ ان گنت طالبات ان سے فیض یاب ہوئیں۔ وہ ایک بہترین استاد‘ صاحب طرز اور سرحد کی پہلی افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اورسب سے بڑھ کر بہترین وشفیق شخصیت اور مجاہدہ تھیں۔مجھے خوشی ہے اور میری خوش بختی کہ مجھے ان سے فیض اٹھانے کاموقع ملا بلکہ ان کی محبت وشفقت بھی میرے حصے میں آئی‘میری خود نوشت" بیتے ہوے کچھ دن ایسے ہیں" میں فرنٹئیر کالج اور اپنی قابل قدر اساتذہ خاص کر فہمیدہ اختر کا ذکر خیر اورخاکہ موجود ہے۔کیا یہ ضروری نہیں کہ فرنٹئیرکالج میں ان کی یاد میں کوئی کمرہ، کوئی سکالر شپ جاری کیا جائے نئی نسل کو آگاہ ہونا چاہئے کہ آج وہ جس درس گاہ میں آزادی سے تعلیم حاصل کر رہی ہیں،اس ملک کی بنیادوں میں اوراس درس گاہ کو عظیم ومعتبر بنانے میں ان مجاہدہ لکھاری دانشور خواتین کا کتنا حصہ ہے۔