مقصد کا حصول

مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی کی تحریروں کا خاصہ ان کا عمیق مشاہدہ اور کسی بھی جگہ کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کی مہارت ہے ، وہ جہاں بھی جاتے ہیں ، وہاں کے باشندوں سے مختصر ملاقات میں اتنی معلومات حاصل کر لیتے کہ بہت سے لوگ وہاں طویل قیام کے دوران بھی اس قد ر معلومات حاصل نہ کرپاتے۔رضا علی عابدی اٹک اور خوشحال گڑھ کے درمیان دریائے سندھ کے کنارے ذرا اونچائی پر واقع ایک علاقے باغ نیلاب سے متعلق بتاتے ہےں کہ وہاں انہوں نے ایک شہری سجاد احمد صاحب سے پوچھا کہ یہاں کچھ پرانے زمانے کے آثار ہےں؟ کچھ پتہ چلتا ہے کہ قدیم دور میں فوجیں یہاں سے دریا پار کیا کرتی تھےں؟ انہوں نے کہا .... ’یہاں ایک قلعہ ہے جہاں سے مغلیہ دور میں فوجیں دریا پار کیا کرتی تھےں اس قلعے کے چاروں کونوں پر چوکیاں تھےں‘ اب بھی ان کے نشانات موجود ہےں وہ سامنے جو بڑے بڑے پتھر نظر آرہے ہےں‘ وہےں قلعہ بھی ہے“۔ میں نے سجاد احمد صاحب سے پوچھا کہ اور کیسے پتہ چلتا ہے کہ یہ بہت قدیم علاقہ ہے؟ کہنے لگے.... یہ جو قبرستان ہے ‘اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ بہت پرانا علاقہ ہے اب آپ کو جتنے بھی کھنڈر نظر آرہے ہےں یہ سب کے سب قبرستان ہےں ‘میں سوچنے لگا کہ کیسا تاریخی علاقہ تھا ‘اب کھنڈر ہوگیا ہے جہاں محل کھڑے ہوں گے وہاں اب قبریں رہ گئی ہےں جو نشانیاں وقت گزرنے کے ساتھ مٹ جایا کرتی ہےں‘ وہ آج تک موجود ہےں اور عظمت رفتہ کی داستانیں سنارہی ہےں ‘باغ نیلاب سے اب مجھے کالا باغ جانا تھا‘جھاڑیوں سے ڈھکے پہاڑی راستے پر بار بار مسافروں سے بھری ہوئی بسیں نظر آرہی تھےں پھر بستیاں نظر آنے لگیں ان کے اندر جدید قسم کے عمدہ‘ آرام دہ مکان ‘کوٹھیاں اور بنگلے نظر آنے لگے‘ ترقی یہاں تک پہنچ گئی تھی بالآخر میری ٹیکسی ریلوے سٹیشن پہنچی پلیٹ فارم پر دودھ اور پتی کی چائے پیتے پیتے انتظار کے لمحے ختم ہوئے اور دور سے بھاری بھر کم ریل کار آتی نظر آئی مجھے ماڑی انڈس جانا تھا۔‘ایک اور مقام پرلکھتے ہیں کہیہ میانوالی کا قصہ ہے ‘مجھے وہاں سے ایک نو عمر طالب علم خط لکھا کرتا تھا لکھتا تھا کہ مجھے ہوائی جہازوں کا دیوانگی کی حد تک شوق ہے ¾ میں ہوائی جہازوں کا انجینئر بننا چاہتا ہوں‘اسکا یہ اشتیاق دیکھ کر میں نے اسے لندن سے ہوائی جہازوں کے بارے میں ایک اچھی سی کتاب بھیج دی اور پھر میں بھول بھال گیا‘ البتہ میانوالی پہنچتے ہی مجھے اس نوجوان کا خیال آیا مگر مجھے تو اب اس کا نام تک یاد نہیں تھا‘ صرف اسکے محلے زادے خیل کا نام یاد رہ گیا تھا۔میں نے اپنے میزبانوں کو یہ ساری بات سنائی اور کہا کہ جی چاہتا ہے کہ جا کر اس سے ملوں اور اس کی ہمت بڑھاﺅں ‘وہ لوگ بولے کہ محلہ زادے خیل یقینا موجود ہے مگر لڑکے کا نام یاد نہیں تو وہ کیسے ملے ‘میں نے کہا کہ مجھے اس محلے میں لے چلئے ¾میں اس مخلوق کو جانتا ہوں جس سے زیادہ محلے کا حال کوئی اور نہیں جانتا‘چانک بارہ بارہ تیرہ تیرہ سال کے تین لڑکے نظر آئے جو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جھومتے چلے جا رہے تھے میں لپک کر ان کے پاس گیا اور بولا کہ بیٹے! اس محلے میں کوئی لڑکا رہتا ہے جسے ہوائی جہازوں کا بے حد شوق ہے؟میرا یہ پوچھنا تھا کہ بچوں نے میری انگلی پکڑی اور لے جاکر ایک مکان کے سامنے کھڑا کر دیا اور بولے’یہاں رہتا ہے وہ۔“ہم سب نے بڑے اشتیاق سے دستک دی۔ امید تھی کہ ایک شاہین صفت ¾ہونہار ¾سعادت مند لڑکا برآمد ہوگا اور مجھے اپنے سامنے کھڑا دیکھ کربے حد خوش ہوگا وہ تو نہیں آیا۔ دروازے پر اس کی والدہ آئیں۔میں نے اپنے آنے کا مدعا بتایا‘وہ بولیں:”شہزاد؟وہ تو سرگودھا چلا گیا ہے“میں نے پوچھا کیوں؟کہنے لگیں:اسے ائیرفورس کے سکول میں داخلہ مل گیا ہے ایک دو برس میں وہ ہوائی جہازوں کا انجینئر ہو جائے گا۔۔واقعی باکمال لوگوں کا شہر ہے۔ ان اقتباسات کا حاصل مطالعہ مصنف کی مہارت اور لگن ہے جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے وہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرتے اور مشکل کام کو آسان بنا دیتے۔