پھولوں کی خوشبو

مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں کہ ہماری جیپ سکردو سے نکلی اور دریا کو چھوتی ہوئی چلی‘ رستے میں درختوں کے جھنڈ آئے‘ گاؤں آئے‘ ہوائی اڈا آیا اور سیاحوں کی بہشت شنگر یلا آئی‘ دریا گھاٹی میں داخل ہونے لگا اور سڑک بلند ہونے لگی کہ اچانک سامنے بڑا سا پل آگیا۔ یہاں ہماری جیپ روک لی گئی‘ اس کی تلاشی لی گئی‘ ڈر تھا کہ اس میں کہیں ہتھیار نہ ہوں‘ہتھیاروں کی و بابلتستان تک پہنچ گئی تھی۔ایک نوجوان جیپ کی تلاشی لینے میں مصروف تھا‘ میں نے باتوں باتوں میں اسے اپنا اتہ پتہ بتایا‘ میرا نام سننا تھا کہ اس نے تلاشی چھوڑی اور مجھے بھینچ کر سینے سے لگا لیا اور جب تک میں نے چائے نہیں پی لی‘ بسکٹ نہیں کھالئے اور بہت دیر تک مصافحہ نہیں کرلیا‘ اس نے مجھے جانے نہیں دیا‘ اتنی چھوٹی آنکھوں سے اتنی بہت سی محبت جھلک سکتی تھی‘ اس کا احساس مجھے بلتستان جا کر ہوا اور اتنی تنگ‘ دشوار گزار‘سنگلاخ اور لڑھکتی 
چٹانوں میں پسی جانے والی گھاٹی میں اتنی علی‘ عمدہ‘ محفوظ اور رواں سڑک بنائی جاسکتی ہے‘ اس کا علم بھی مجھے بلتستان پہنچ کر ہوا۔اب جو ہماری جیپ آگے چلی‘ انسان اور اس کے ہنر اور اس کے عزائم کے بھید کھلتے گئے‘ ہمالیہ کے پار قراقرم کے برف سے ڈھکے پہاڑ سراٹھائے کھڑے تھے‘جن میں پاکستان کے انجینئروں اور فوجیوں نے یہ ایسی سڑک تراشی ہے کہ اس پر چلتے ہوئے دل دہلتا جاتا ہے اور عقل داد دیئے جاتی ہے‘ کبھی یوں لگا کہ بہت اونچائی پر کوئی دوسری سڑک چلی جارہی ہے‘ ذرا دیر بعد خود کو اسی سڑک پر پایا‘ کبھی یہ نظر آیا کہ نیچے گہرائی میں ایک متوازی سڑک دوڑ رہی ہے کچھ دیر بعد خود کو اس پر دوڑتا ہوا دیکھا۔ حیرت انگیز طو پر تراشی ہوئی چٹانیں جن پر تتر بتر گھاس کے سوا کسی درخت کا نام و نشانہ بھی نہ تھا‘کہیں کہیں بالائی چٹانیں ہمارے سروں کے اوپر جھکی ہوئی تھیں‘ ایسی شاہراہ پر قدم قدم پر خوشبو دار پھول کھلے ہوتے تو کتنا اچھا لگتا مگر اس شاہراہ پر قدم قدم پر کتبے کھڑے تھے جن پر لکھا تھا ”اس جگہ سڑک بناتے ہوئے فلاں انجینئر شہید ہوا‘ اس مقام پر ڈرائیور فلاں نے جام شہادت نوش کیا……اور اس جگہ کرنل فلاں بارود کے ناگہاں دھماکے میں شہید ہوئے“۔اس روز پتھر کے کتبوں سے پھولوں کی خوشبو آئی۔ہماری جیب دریا کے ایک کنارے پر بہت اونچی سڑک پر جارہی تھی اور دوسرے کنارے پر بہت نیچے‘ لب دریا ایک سرسبز گاؤں تھا جس کے ہریالے میدان 
میں لوگ پولو کھیل رہے تھے‘ اونچائی سے یہ منظر بڑا دلفریب لگا۔ ہمالیہ پار قراقرم کے دامن میں پولو کا کھیل صدیوں سے چلا آرہا ہے‘ یہاں کے باشندے پولو دیکھنے یوں جاتے ہیں جیسے ہم لوگ میلہ دیکھنے جاتے ہیں‘ گھوڑے سجتے ہیں‘ کھلاڑی سنورتے ہیں اور وادیوں میں ڈھول تاشے اور نفیریاں گونجتی ہیں اور اس طرح گویا اعلان ہوتا ہے کہ جسے دیکھنا ہو آجائے‘ پولو کا مقابلہ شروع ہورہا ہے۔“ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ مصنف کادلکش اسلوب ہے جو تحریر کو تازگی بخشتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مصنف کا تخیل اور تخلیقی قوت بھی قابل ستائش ہے کہ کس طرح وہ شاہراہ قراقرم پر پھولوں کی خوشبو کی بات کرتا ہے اور پھر کس طرح اس مشکل اور دشوار گزار پہاڑوں سے گزری ہوئی شاہراہ کے بنانے میں جان کی قربانی دینے والوں کی یاد میں لگائے گئے کتبوں کو پھولوں سے تشبیہ دیتا ہے جس سے خوشبو آتی ہے۔