احمد ندیم قاسمی ( ڈاکٹر ظہور احمد اعوان)

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
اس سال احمد ندیم قاسمی 80 سال کے ہوگئے۔ مضمون ان کی زندگی میں لکھا گیا۔ لاہور اور اسلام آباد والوں نے ان کی سالگرہ منائی۔ اہل پشاور نے بھی جھرجھری لی۔ قاسمی صاحب پشاور آئے۔ ہمارے مہربان دوست عزیز نیازی صاحب کے قرطبہ کالج میں دو تقاریب منعقد ہوئیں قاسمی صاحب سے 80 غزلیں سننے کی فرمائش کی گئی انہوں نے 80 شعر سنانے پر اکتفا کیا۔ ڈھیروں شعر سنائے اور ایک سماں باندھ دیا۔ جس نے سنا مبہوت ہوکر رہ گیا۔ دل سے آہ اور زبان سے واہ نکلتی تھی۔ باہر فضا میں موسم سرما اپنا سکہ جما رہا تھا۔ پھوار زمین حیات آباد کو تر بتر کررہی تھی اندر کالج کا آڈیٹوریم شعر و سخن کی اعلیٰ ترین سوغاتوں اور خلوص و صفا کی ساعتوں‘ نرماہٹوں‘ گرماہٹوں سے معمور تھا۔ احمد ندیم قاسمی عہد حاضر کے سب سے ممتاز و منفرد سخن ور ہیں۔ اردو دنیا میں ان کا سکہ قائم بھی ہے اور چل بھی رہا ہے۔ نظم و نثر دونوں میدانوں میں یکساں توانائی و حرارت کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ صحت ان کی قابل رشک ہے۔ متحرک و فعال ہیں۔ ان کے افسانوں کا تازہ ترین مجموعہ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ فنون اپنا کمال الگ دکھا رہا ہے اور قاسمی صاحب شعر و سخن کے چراغ لئے وطن کی وادیوں میں کو بہ کو پھر رہے ہیں انکے مداح و معتقد ستائش و عقیدت کے پھول ان کے قدموں میں ڈھیر کررہے ہیں۔ نظمیں نثرانے تحائف نذرانے پیش کئے جارہے ہیں۔ قاسمی صاحب ان چیزوں سے بے نیاز و بلند ہوچکے ہیں۔ جتنی تعریف سنتے ہیں اتنا ہی انکسار ان کے چہرے پر رقم ہوتا جاتا ہے۔ قاسمی صاحب اپنا کلام سنا رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا از کجامی آید ایں آواز دوست۔ زبان قاسمی صاحب کی ہے۔ باتیں کسی اور کی ہیں۔ جب خالق دو جہاں مہربان ہوتا ہے تو اپنے تخلیقی جوہر کی جگ مگ سے اپنے پسندیدہ بندوں کو جگمگا دیتا ہے۔ یہ جگمگاتے لمحے جب قلب شاعر پر اترتے ہیں تو پھر شعر جنم لیتے ہیں۔ یہ شعر پھر سننے والوں کے قلب و روح پر مہک بن کر اترتے ہیں۔ دل سے دل کو راہ ملتی ہے۔ شیرے کا تار بندھ جاتا ہے۔ ایک کیفیت جاگ اٹھتی ہے ‘پیمانہ انبساط لبریز ہوجاتا ہے جذبہ آنکھوں کی راہ سے بہہ نکلتا ہے من دھل جاتا ہے۔ اچھی شاعری اچھا فن اچھے انسان جس شخص کو تینوں تحائف مل جائیں تو احمد ندیم قاسمی کہلاتا ہے قاسمی صاحب افسانے شاعری‘ نظم و نثر کے میدانوں میں جو پھریرے گزشتہ ساٹھ سال سے لہرا رہے ہیں ان سے ایک زمانہ آگاہ ہے۔ ترقی پسند تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ برطانوی سامراج سے ٹکرائے پھر پاکستانی سامراج کے وڈیروں اور آمروں سے پنجہ آزمائی کی۔ خوف و ہراسانی نے پیچھا کیا مگر قاسمی صاحب نے انسانوں کے دکھ درد بانٹنے کا شیوہ ترک نہ کیا۔ جتنی چمکیں ان کے پنڈے پر اس جرم کی پاداش میں پڑتیں اتنا ان کا ایمان مستحکم ہوتا جاتا۔ انسان کی عظمت پر ان کا ایمان بڑھتا جاتا انسان عظیم ہے۔ اس کو رب کائنات نے زبان دی‘ ذہن دیا‘ شعور دیا‘ ضمیر دیا‘ قوت ارادی دی مگر نشیب نشینوں کی زندگی کا سکھ چین پیار ہار سنگھا چند غاصب آمر بالا نشین ساجھے داری کے ذریعے لوٹتے رہتے ہیں‘مٹھی بھر افراد کا ٹولہ پوری انسانیت کی زندگی کی بہاریں اپنی جیبوں اور تجوریوں میں بھرے دندناتا پھرتا ہے۔ اس عالم جبر و جبروت میں سرفروش انسانوں کا ایک منتخب طبقہ اپنے قلم اور اپنی زبان کو پرچم اور تلوار بنا کر میدان میں اترتا ہے۔ یہ طبقہ سچے شاعروں‘ ادیبوں اور فنکاروں کا ہوتا ہے۔