دل میں بسا پشاور

انسان چاہے جہاں بھی رہے تاہم وہ اپنی جنم بھومی اور آبائی شہر کو کبھی نہیں بھولتااور خاص مواقع پراس کی یادیں شدت سے ستانے لگتی ہیں۔اپنی کتاب” ادب کے اطراف میں“ میںناصر علی سیّد ،ممتاز ادیب ارشاد احمد صدیقی کے ایک ای میل کے مندرجات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں”وہ ایک عام سی رات تھی سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا تھاوقت پرعشائیہ ملا اور نوش جان کیا مگر بعد میں صورتحال معمول کے مطابق نہ تھی جب عشائیہ کے کچھ ہی دیر بعد پیٹ میں ہلکا سا درد محسوس ہوا جو اس وقت ناقابل برداشت ہوگیا جب آدھی رات اِدھراور آدھی رات اُدھر تھی۔ میری بیگم آرلین مجھے فوراً ایمرجنسی ہسپتال لے گئی جہاںڈیوٹی ڈا کٹر نے مجھے ایکسرے اور ایم آر آئی میں داخل کر دیا (ICU)کے لئے دو اور ماہرین کی طرف بھیجا اور پھر تینوں معالجین کے مشورے پر مجھے انتہائی نگہداشت کی یونٹ۔ وہ رات ایک قیامت کی رات تھی بلکہ اسے آپ اک عاشق نامراد کی رات سے تعبیر کر سکتے ہیں حالانکہ آرلین میرے ساتھ ہی تھی۔یہ ایک انوکھا تجربہ تھا گویا 
میں تجھ کو پاکے بھی فرقت میں چلتارہتا ہوں 
کسی نے دیکھے نہ ہوں گے یہ قربتوں کے عذاب 
مسلسل معدے کی صفائی پر مامور نرس نے مجھے بتایا کہ گال بلیڈر کی سرجری کا سوچا جا رہا ہے۔ ممکن ہے صبح سویرے پہلا کام یہی ہو۔اب میرا مسئلہ یہ کہ کسی بھی چھری بدست سرجن سے یہ میری پہلی ملاقات تھی کہ بزعم خود میں اپنی صحت اور تندرستی پر ناز کرتا رہا ہوں اور عمر کے اس حصے تک جسم کو کسی بھی چھوٹی بڑی سرجری سے محفوظ رکھے ہوئے تھا۔ مگر بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی ‘ہونی کو ہونا تھا اور وہ یوں ہوئی کہ صبح ساڑھے آٹھ بجے مجھے سرجری روم لے جایا گیا جہاں میں نے نیم خوابید گی کے عالم میں اپنے معالج سے بریفنگ لی اور جب آنکھ کھلی تو آرلین نے کہا ”ہوگیا “ میں نے پوچھا کیا ‘کب اور وقت کیا ہے ؟کہنے لگی ساڑھے تین بج رہے ہیں۔ تفصیل پوچھی تو بتایا گیا کہ گال بلیڈر کے درمیان کی یہ پتھریلی ر کاوٹیں دوران خون اور آکسیجن کے بہاﺅ میں خلل ڈال رہی تھیں‘ بس یہی وجہ فوری سرجری کی بنیاد بنی ۔مجھے کہا گیا تھا کہ یہ عمومی سرجری ہے اور آپ دو ایک دن میں گھر لوٹ جائیں گے مگر میرے کیس میںیہ ایک ایسا حلوہ جس میں کانٹے نکل آئے اور مجھے اپنی زندگی کے پہلے ہی آپریشن میں دس دن تک ہسپتال میں رکنا پڑا اور اس قید کو ہسپتال کے پھیکے اور بدمزہ کھانے قید با مشقت بنارہے تھے ۔اب گھر لوٹ آیا ہوں مگر کرسی سے صوفے اور صوفے سے بیڈ پر بیٹھنے کے علاوہ زیادہ ہلنے جلنے کی اجازت نہیں ہے۔ فالواپ معائنے میں مجھے بہتر قرار دیا گیا ہے اور سب اچھا کی رپورٹ دی جارہی ہے مگر یہ کچھ یوں ہی سی ہے کہ 
گلی گلی میں قیامت سی ایک برپا ہے 
امیر شہر سے کہہ دیجئے سب اچھا ہے 
کیونکہ کھانے میں فروٹ اور بغیر گلی ہوئی سبزیوں سے بات آگے نہیں بڑھ رہی اور یہ دل ہے کہ صبح شام نرگسی کوفتے اور پانچوں (پائے )کے شوربے میں ڈبوئی گئی لواش (روٹی)تصور میں بسائے ہوئے ہے۔دوستو امریکہ سے شائع ہونے والے معتبرادبی جریدہ کے مدیر ارشاد احمد صدیقی کے بھیجے ہوئے ایک برقی خط کا یہ مفہوم اس خیال سے آپ تک پہنچایا کہ قلم قبیلے کے احباب ذاتی وار دات اور دکھ بھرے تجربوں کے بیان کا کتنا عمدہ سلیقہ جانتے ہیں۔ خصوصاًپشاور کے حوالے تو ان کے اندر رچ بس گئے ہیں۔ عتیق احمد صدیقی روزنامہ آج کے ہمسایہ کالم نگار اور دانشور کے کالموں میں ان کے بھرپور تجزئیے اور عمدہ انداز بیان اپنی جگہ مگر احباب کے نام لکھے ہوئے ان کے خط بھی پشاور کے ذکر سے ہی شرابور ہوئے ہیں ‘نرگسی کوفتے پائے صبح ناشتے کی حلیم شولہ اور دیگر روایتی پشاوری کھانے عتیق احمد صدیقی کی بھی کمزوری ہیں ۔ارشاد احمد صدیقی کے برعکس ان کو البتہ یہ سہولت بڑی حد تک امریکہ میں بھی حاصل ہے کہ بھابھی کے ہاتھ میں بلا کی لذت ہے بلکہ ایک لطیفہ یہ بھی ہوا کہ جب میں ان کے پاس کیپ کاڈ میں تھا تو انہوں نے بھا بھی سے کہہ دیا تھا کہ ”ناصر سارا دن کھاتا رہتا ہے اور رفعت اس کے لئے ہمیشہ خانہ یخ بھرا رکھتی ہے۔وہ ان کی باتوں میں آگئی اوردن میں کئی کئی بار مختلف نمکین اور میٹھی ڈشیں مجھے کھانا پڑیں اور ظاہر ہے عتیق صدیقی ان کھانوں میں میرے شریک رہتے۔ مجھے البتہ ڈینور میں مقیم داﺅد حسین عابد کی بیگم کے ہاتھ کے نرگسی کوفتے کھانے کا اتفاق نہیں ہوا حالانکہ میں ان کے ہاں بھی کچھ عرصہ کیلی فورنیا میں مقیم رہا اور انواع واقسام کے عمدہ کھانے کھائے کیونکہ بھا بھی بھی خالصتاًپشاوری ہیں اور پانچوں (پایوں)کے گڑھ جہانگیر پو رہ کی رہائشی ہیں لیکن ارشاد احمد صدیقی نے گزشتہ سال ایک ایسے ہی برقی خط میں ان کے ہاں کے نرگسی کوفتوں کی شان میں پورا ایک قصیدہ لکھا تھا معلوم نہیں گال بلیڈر نکلوانے کے بعد وہ کب تک نرگسی کوفتوں سے مستفیض ہو سکیں گے۔اس اقتباس کا حاصل مطالعہ وطن سے دور رہنے والوں کے دلوں میں بسنے والے شہرپشاور کی یادیں ہیں اور غم ہو یا خوشی، دکھ ہو یا راحت، ہر موقع پر بہانے بہانے اس کو یاد کرنا ہے ۔