جڑانوالہ : ‏ناقابل تلافی نقصانات

شبیرحسین اِمام

‏جڑانوالہ کے علاقے عیسیٰ نگری میں حالات معمول پر لانے کے لئے حکومت پاکستان کی کاوشیں لائق تحسین ہیں تاہم جب تک واقعے کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزائیں نہیں دی جاتیں اُور اِس سانحے کے متاثرین کی امداد و بحالی کا عمل مکمل نہیں ہو جاتا اُس وقت تک خوفزدہ متاثرین کی تسلی و تشفی نہیں ہو گی۔

عینی شاہدین کے مطابق عیسی نگری میں یونائیٹڈ پریسبیٹیرین چرچ کی چار دیواری جس کی گلابی دیواروں پر کرسمس تہوار کے لئے لگائی گئیں رنگ برنگی آرائش اب بھی لہرا رہی ہیں۔ ہتھوڑے کی مدد سے گرجا گھر کی دیواروں کو توڑا گیا اور پھر وہاں پڑے سازوسامان کو آگ لگا دی گئی۔ گرجا گھر جس تنگ گلی میں ہے اب وہاں ہر طرف جلی ہوئی اشیا پڑی ہیں۔‏

‏گلی کی دائیں طرف کا پہلا گھر اللہ دتہ کا ہے جہاں وہ اپنی والدہ کے ساتھ رہتا تھا۔ 30 سالہ اللہ دتہ جڑانوالہ اسسٹنٹ کمشنر کے گھر باغبان کے طور پر کام کرتا تھا جسے جان بچانے کے لئے فرار ہونا پڑا۔ اُس کا گھر لوٹ لیا گیا اور دیگر گھروں کی طرح جلا دیا گیا۔‏

‏عیسیٰ نگری کی ہر گلی میں یہی کہانی ہے جہاں صحافی، سرکی اہلکار، پڑوسی، این جی اوز کارکن اور پادری متاثرین کو دلاسہ دیتے ہیں۔ اُن کے نقصانات کے ازالے کے لئے ممکن تعاون کا یقین دلاتے ہیں اُور متاثرین کے آنسو پونچھتے نظر آتے ہیں۔ عیسی نگری کے بہت سے مکین اپنے اُجڑے گھروں کو لوٹ آئے ہیں اُور اپنی کل جمع پونجی کی راکھ دیکھ کر صدمے سے نڈھال ہیں۔ اِن پریشان حال لوگوں کے لئے بہت سے نقصانات ایسے بھی ہیں جو ناقابل تلافی ہیں اُور بہت سے زخم ایسے ہیں جو شاید کبھی بھی نہیں بھر سکیں گے!‏