پشاور کے ہندکووان: جدوجہد اُور مستقبل

شبیر حسین اِمام

ہندکووان: سچ تو یہ ہے کہ پشاور کو پشاور کی تلاش


شاعر جاں نثار اختر نے کہا تھا کہ ”یہ دوستی‘ یہ مراسم‘ یہ چاہتیں یہ خلوص …… کبھی کبھی مجھے سب کچھ عجیب لگتا ہے۔“ ایسی ہی ایک تعجب خیز جدوجہدبنام ’پاکستان ہندکووان تحریک‘ ہے جو معاشرے میں ’خاموش انقلاب (ارتعاش)‘ کے لئے سرگرم ہے۔ رواں ہفتے اِس تحریک کے نمائندہ وفد نے گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی سے ملاقات میں ہندکو زبان بولنے والوں کا مقدمہ نہایت ہی خوبصورتی اُور شائستگی سے پیش کیا ہے جو نرم خو اُور صلح جو اہل پشاور کا خاصا ہے کہ اِن کے اختلاف میں بھی مٹھاس ہوتی ہے۔ پاکستان ہندکووان تحریک کیا ہے؟ ایک جملے میں اِس کی وضاحت یہ ہو سکتی ہے کہ تاریخ و ثقافت اُور لسانی و تہذیبی پہچان کے علاؤہ معاشی و سماجی مفادات کے تحفظ کے لئے جب سیاسی جدوجہد کی ضرورت محسوس کی گئی تو اُسے ’پاکستان ہندکووان تحریک‘ کا نام دیا گیا اُور اِس پلیٹ فارم سے کوشش کی گئی ہے کہ ہندکو زبان بولنے والوں کو جس تنہائی اُور راندہئ درگاہ ہونے کا احساس اندر ہی اندر سے دیمک کی طرح کھائے جا رہا ہے اُسے ختم کیا جائے۔ پاکستان ہندکووان تحریک کے ’مشن (مقصد و ہدف)‘ کی وضاحت اِس کے علاؤہ یہ بھی ہے کہ اِس ہندکووانوں کی اِس جمعیت کے حوالے سے غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے جو اپنے مقصد کے لئے سنجیدہ ہے اُور سنجیدگی پر یقین رکھتا ہے۔ غنیمت ہے کہ آج کی تاریخ میں ایسے ہم خیالوں پر مشتمل ایک سات رکنی وفد نے تحائف کے ساتھ گورنر ہاؤس پشاور میں حاجی غلام علی سے ملاقات کی اُور اُن کی صبحت و میزبانی سے لطف اندوز ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ وفد کی قیادت تحریک کے چیئرمین (روح رواں) ڈاکٹر سقاف یاسر ایڈوکیٹ کر رہے تھے جبکہ اِس وفد کے دیگر اراکین میں صوبائی صدر خواجہ اکبر سیٹھی‘ احمر ضیا گیلانی‘ وقار لودھی‘ ڈاکٹر افتخار حسین‘ عبد البصیر اُور علی رضا شامل تھے۔ اِس موقع پر گورنر خیبرپختونخوا کو ’پاکستان ہندکووان تحریک‘ کے قیام کی ضرورت (پس منظر) اُور اِس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا گیا کہ ہندکو بطور مادری زبان و ثقافت رکھنے والوں کے نام پر صرف سیاست ہی نہیں کی جا رہی بلکہ تحریک فلاحی سرگرمیاں بھی سرانجام دے رہی ہے اُور اگرچہ ’ہندکووان تحریک‘ ابھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس باقاعدہ رجسٹرڈ نہیں ہوئی لیکن اِس تحریک نے اپنی خدمات کا دائرہ عمومی اُور روائتی سیاست سے کہیں زیادہ بلند (مختلف) رکھا ہوا ہے اُور یہ طرزعمل دیگر جماعتوں کے مشعل راہ ہے کہ محبت فقط اک بار ہوتی ہے اُور یہ خلوص دل سے ہوتی ہے


ڈاکٹر سقاف یاسر ایڈوکیٹ نے گورنر خیبرپختونخوا کو ’پاکستان ہندکووان تحریک‘ کے فلسفے اُور اِس کے بنیادی اغراض و مقاصد سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ”اِس تحریک کا مقصد تعصب نہیں بلکہ پہچان ہے اُور ہندکووان دیگر قابل احترام اقوام کی طرح یکساں سیاسی‘ معاشی و سماجی حق چاہتے ہیں۔“ انہوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں ہندکووان شخصیات کے کردار پر بھی روشنی ڈالی اُور کہا کہ دیگر اقوام کی طرح ہندکووانوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اُور دیگر اقوام کے شانہ بشانہ بلکہ اُن سے بڑھ کر جانی و مالی قربانیاں دیں اُور ایثار کا مظاہرہ کیا لیکن یہ امر نہایت ہی افسوسناک ہے کہ آج ہندکو زبان بولنے والوں بالخصوص پشاوریوں کو اپنے ہی ضلع میں سرکاری ملازمتیں نہیں مل رہیں اُور دیگر اضلاع کے رہنے والوں کو پشاوریوں پر ترجیح دی جا رہی ہے۔ اُنہوں نے میٹرو بس (بی آر ٹی) کے نام اُور اِس میں کئے جانے والے اعلانات کے لئے منتخب زبانوں میں ہندکو زبان کو شامل نہ کرنے پر افسوس اُور تعجب کا اظہار کیا کہ پشاور کی اکثریت ہندکو زبان بولتی اُور سمجھتی ہے لیکن ہندکو زبان کو دانستہ طور پر نظرانداز کیا جا رہا ہے اُور اِسے خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جا رہی جبکہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ حکومت بلاتعصب و تفریق ہندکو زبان اُور ہندکو زبان بولنے والوں کے سماجی و معاشی مفادات کا تحفظ کرے۔ اِس موقع پر گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے کہا کہ اُن کی ساری زندگی پشاور میں گزری اُور انہوں نے پشاور اُور پشاور کے ہندکو زبان بولنے والوں سے پیار ہے۔

ہندکووان تحریک کی جانب سے خیبرپختونخوا کے نگران سیٹ اپ میں ہندکووانوں کو شامل کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی اُور مطالبہ کیا گیا ہے کہ عدنان جلیل اُور ملک مہر الہٰی اعوان کو دوبارہ صوبائی کابینہ میں شامل کیا جائے۔ اِس موقع پر پشاور کے مسائل کے حوالے سے بھی انتہائی خوشگوار ماحول میں تبادلہئ خیال ہوا اُور تحریک کی جانب سے اُٹھائے گئے بہت سے نکات سے گورنر حاجی غلام علی نے اتفاق بھی کیا۔ تحریک کے صوبائی صدر اکبر سیٹھی نے بات چیت میں گرانقدر نکات کا اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ پشاور ایک تاریخی شہر ہے جہاں کے باغات اُور پھول مشہور ہوا کرتے تھے اُور اِس شہر کے رہنے والے اپنی خاص ثقافت‘ رہن سہن اُور بودوباش رکھتے تھے لیکن افسوس کہ پشاور کے اثاثے وسائل اُور ثقافت تجاوزات اُور قبضے کی زد میں ہے اُور ہندکووان تحریک درحقیقت ایک ایسی آزادی کی جدوجہد بھی ہے جو ہندکووانوں کو اُن کے تشخص اُور زبان سے ٹوٹے یا کمزور ہوئے رشتے کو جوڑنا چاہتی ہے جسے ملنے والی پذیرائی اِس بات کی گواہ ہے کہ تحریک اپنی اِس مخلصانہ کوششوں میں بڑی حد تک کامیاب ہوئی ہے اُور آج ہندکووانوں کے حقوق سے متعلق شعور اُجاگر ہوا ہے اُور لوگ اِس حوالے سے بات چیت کرتے ہیں اُور ہندکو زبان و ثقافت پر فخر محسوس کرتے ہیں جو انقلابی سماجی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔


’پاکستان ہندکووان تحریک‘ کے قیام کی ضرورت ’دردمند مؤقف‘ اُور ’بے لوث ہمدردانہ جذبات‘ کا نتیجہ تھا جس کے لئے ڈاکٹر سقاف یاسر ایڈوکیٹ نے اپنے علمی‘ عملی اُور مالی وسائل کا فراخدلانہ استعمال کرتے ہوئے جس جرأت کے ساتھ ہندکووانوں کی شناخت اُور اُن کے حقوق کے تحفظ کے لئے آواز اُٹھائی ہے اُور بیک وقت کئی ایک محاذوں پر ڈٹ کر کوششیں کر رہے ہیں وہ واقعی لائق تحسین ہے۔ اُمید تھی کہ اُن کی سیاسی و سماجی اُور فلاحی کوششوں کو دیکھتے ہوئے رواں برس یوم آزادی (چودہ اگست) کے موقع پر اُنہیں قومی سول اعزاز سے نوازہ جائے گا لیکن جس انہماک اُور جس خلوص و مستقل مزاجی سے وہ ہندکو زبان بولنے والوں کے حقوق کا تحفظ کر رہے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب ایک نہیں بلکہ کئی قومی و صوبائی اعزازات اُن کی شخصیت‘ ساکھ اُور وقار میں اضافہ کریں۔ اُمید یہ بھی ہے کہ پشاور اُور ملک کے دیگر شہروں میں آباد ہندکووان اپنی لسانی و ثقافتی شناخت کو چھپانے کی بجائے اُس کو قابل فخر سمجھیں گے اُور ’پاکستان ہندکووان تحریک‘ میں شامل ہو کر اُس علمبردار قافلے (جدوجہد) کا حصہ بنیں گے جو کسی کی شخصی شناخت یا سرفرازی کے لئے نہیں بلکہ اجتماعیت اُور قومیت کی سوچ کو فروغ دینے کے لئے ہے۔ ایک ایسی قومیت کا تصور جس کے خمیر و ضمیر اُور مافی الضمیر میں تعصب نہیں اُور جس سے نفرت کی بو بھی نہیں آ رہی تو یقینا ہندکووان اپنے آنے والی نسلوں کے لئے متحد ہوں گے اُور صرف اتحاد ہی راہئ روشن اُور راہ نجات ہے۔

اہل دل‘ اہل نظر‘ اہل پشاور کی تلاش

سچ تو یہ ہے کہ پشاور کو پشاور کی تلاش

……