خلائی تحقیق: برتری و انحطاط

شبیر حسین امام

خلائی تحقیق: برتری و انحطاط

روس‘ امریکہ اُور چین کے بعد بھارت چاند پر اترنے والا چوتھا جبکہ جنوبی ایشیا کا پہلا ملک ہونے کا اعزاز پا گیا ہے اُور صرف یہی نہیں بلکہ بھارت کا ’چندریان تھری‘ نامی خلائی جہاز چاند کے جنوبی قطب کے قریب اترنے والا پہلا خلائی جہاز ہے جہاں چاند کی سطح انتہائی ناہموار ہے اُور وہاں بڑی تعداد میں گڑھوں اور پتھروں کی وجہ سے لینڈنگ آسان نہیں۔ توقع ہے کہ چاند گاڑی دو ہفتوں تک چاند کے مختلف حصوں پر گھوم پھر کر معلومات جمع اُور ارسال کرے گی۔ خلائی تحقیق میں اِس تازہ ترین کامیابی سے بھارت میں خلائی علوم اُور اُن میں تحقیق کا منظرنامہ بھی دنیا کے سامنے پیش ہو گیا ہے کہ کس طرح بھارت نے زیادہ تر اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ایک ایسے کام کو ممکن کر دکھایا جو روس‘ امریکہ اُور چین جیسے ترقی یافتہ ممالک تاحال نہیں کر سکے حالانکہ اُن کے خلائی تحقیق کے پروگرام بھارت سے کئی پرانے ہیں۔ بھارت کے خلائی تحقیق کا ادارہ معروف سائنسدان ویکرم سارابھائی نے 15 اگست 1969ء کے روز قائم کیا تھا اُور اِس کا صدر دفتر انتریکش بھون بنگلور (بنگلورو) میں واقع ہے۔ پاکستان میں خلائی تحقیق کا ادارہ ’سپارکو (اسپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن) بھارت کے خلائی ادارے سے 8 سال قبل یعنی  16 ستمبر 1961ء میں قائم ہوا تھا اُور اِس کے بانی ڈاکٹر عبدالسلام تھے۔ ابتدا میں پاکستان نے خلائی تحقیق میں خاصی پیش رفت کی تھی اُور 1962ء میں ایک خلائی سیارہ خلا میں بھیجا تھا جس سے اِسے خلا میں راکٹ بھیجنے والا تیسرا ایشیائی ملک ہونے کا اعزاز ملا۔ قابل ذکر بات یہ ہے اِس وقت خلا پر کسی بھی ملک کی اجارہ داری نہیں۔ کوئی بھی ملک چاند اُور دیگر ستاروں یا سیاروں پر موجود زندگی کے آثار یا پانی کے ذخیرے اُور معدنیات کی تلاش کر سکتا ہے۔ خلائی تحقیق اُور خلا میں راکٹ بھیجنے والا پاکستان پہلا اسلامی ملک ہونے کا اعزاز رکھتا ہے لیکن یہ اعزاز وقت کے ساتھ قدیم ہو چکے ہیں اُور پاکستان کا خلائی تحقیقی پروگرام انحطاط کا شکار ہے۔

بھارت صرف خلائی تحقیق ہی میں نہیں بلکہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران معاشی اصلاحات کی وجہ سے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھارت دنیا کی بڑی کمپنیوں کو تربیت یافتہ افرادی قوت اُور خدمات فراہم کر کے زرمبادلہ کما رہا ہے۔ بھارت میں تعلیم و تحقیق کے نسبتاً بلند معیار کی وجہ سے گوگل اور مائیکروسافٹ سمیت معروف عالمی کمپنیوں کے سربراہ (سی ای اوز) بھارتی نژاد سائنسدان ہیں اور خلائی تحقیق کے شعبے میں سرمایہ کاری کر کے ایسا لگتا ہے کہ بھارت خلا کی سیاحت اُور معدنیات کے ذخائر تک رسائی حاصل کر کے وہ آخری سرحد بھی عبور کرنا چاہتا ہے‘ جس کے لئے سرمائے سے زیادہ علم و تحقیق پر مبنی ذہانت و اہلیت کا اثاثہ ہونا ضروری ہے۔

بھارت کی خلائی تحقیق پاکستان کے نکتہئ نظر سے بھلے ہی بے معنی پیش رفت ہو لیکن دنیا اِسے ’تاریخی کامیابی‘ قرار دے رہی ہے۔ پاکستان کے ہمسایہ ملک میں اگر علوم و فنون اُور تحقیق و تربیت کا معیار اِس حد تک بلند ہو چکا ہے تو علم مومن کی گمشدہ میراث ہے اُور اِسے حاصل کرنے کے لئے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے۔ وقت ہے کہ بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کی بہتری پر غور کرتے ہوئے اُن حکمت عملیوں پر نظر ثانی کی جائے جس کی وجہ سے بھارت کے ساتھ تجارت اُور تعلیم و تحقیق میں تعاون ممکن نہیں رہی۔

توجہ طلب ہے کہ بھارت نے خلائی تحقیق میں راتوں رات مہارت اُور کامیابی حاصل نہیں کی بلکہ اِس نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے۔ سال دوہزاراُنیس میں جب بھارت کا چاند مشن ناکام ہوا تھا تو اُس وقت پاکستان کے سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر نے مزاحیہ بیانات دیئے تھے جو درحقیقت سنجیدگی کے فقدان کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کے نوجوانوں میں ذہانت اُور اہلیت موجود ہے۔

قریب ایک ماہ قبل کی بات ہے کہ پاکستان سے بیس طالب علموں نے امریکہ کے خلائی تحقیقاتی ادارے (ناسا) میں ہوئی ’سائنس نمائش‘ میں حصہ لیا اُور سال دوہزارپندرہ کی بات ہے جب ایک پاکستانی طالب علم نے ناسا کے لئے کئے گئے اپنے ڈیزائن پر انعام بھی جیتا تھا۔ معلوم ہوا کہ پاکستان میں اہلیت اُور ذہانت (ٹیلنٹ) کی کوئی کمی نہیں بس قومی ترجیحات پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اگر طلبہ کو رہنمائی اُور وسائل فراہم کئے جائیں تو پاکستان خلائی تحقیق میں نام کما سکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ پاکستان کی خلائی تحقیق کے معیار کا موازنہ بھارت سے نہیں کیا جا سکتا جہاں ریاضی اُور سائنس کے مضامین کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اُور اِس مقصد کے لئے بھارت میں آن لائن (فاصلاتی) تعلیم کے وسائل پر توجہ دی گئی ہے۔ خلائی تعلیم و تحقیق کی طرح پاکستان کو صحت و معیشت اُور سیاحت کے شعبوں کی ترقی پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔

’سائنسی ترقی‘ کا ہدف مستحکم معیشت اُور سیاسی استحکام کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کی طرح پاکستان کو بھی اپنے وسائل سے سائنس و ٹیکنالوجی کے ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے جنہیں متعلقہ شعبوں کے ماہرین کے ذریعہ چلایا جائے اُور سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت کی روایت کا خاتمہ ہو۔ تعلیم و تحقیق کے شعبے میں اگر ہمارے فیصلہ ساز سیاست دانوں کی بجائے ملک اُور سے وفاداری کا عملاً ثبوت دیں تو اِس سے نتیجہ بھارت جیسا مختلف برآمد ہو سکتا ہے جس نے اپنے وسائل اُور تحقیق سے چاند اُور مریخ کے مشن کامیابی سے مکمل کر لئے ہیں اُور اب اُس کی نظریں خلا کی وسعتوں پر ہے‘ جس سے متعلق سائنس دانوں کو یقین ہے کہ وہاں نئی دنیائیں اہل علم و بصیرت کی منتظر ہیں۔
……